غزل: اُس کی منزل تاریکی ہے،میری منزل رات۔ایک ہی بات - منصور آفاق

منصور آفاق

محفلین

اُس کی منزل تاریکی ہے،میری منزل رات۔ایک ہی بات
میرے ساتھ چلی جائو تم یا سورج کے ساتھ۔ایک ہی بات

موسم اور میں ایک ہی دریا کے دو پاگل فرد۔درد نورد
برکھا رت کے آنسو ہوںیاآنکھوں کی برسات۔ ایک ہی بات

تیز ہوا کی زد پر دونوں،ایک ہی پل کا روپ۔موت کی دھوپ
جیون سے آویختہ میں یا پیڑ سے مردہ پات۔ایک ہی بات

اس کے کنج ِ لب میں میری مسکانوں کی دھول۔ ہجرکے پھول
یعنی جیت کسی کی اور مسلسل میری مات ۔ ایک ہی بات

میں گمنام یہاں تو اس کا جانے کون مقام۔کون غلام
ملک سخن کامیںشہزادہ اور ہے وہ سادات۔ ایک ہی بات

تیز کراہیں ، آہیں ، چیخیں،گرمی اور سیلاب۔سانس عذاب
پاکستان کے منظر ہو ںیادوزخ کے حالات۔ ایک ہی بات

رنگ گریں گے قوسِ قزح سے،پھولوں سے سنگیت۔میت کے گیت
صبح ِ بدن پر میرا ہو یا بادصبا کا ہاتھ۔ ایک ہی بات

کیسے کہوںمیں باہو ، بلھا ، وارث ، شاہ حسین۔پیر فرید
کیسے کہوںمنصور کے یا اقبال کے فرمودات۔ ایک ہی بات​
 

نایاب

لائبریرین
سچ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیز کراہیں ، آہیں ، چیخیں،گرمی اور سیلاب۔سانس عذاب
پاکستان کے منظر ہو ںیادوزخ کے حالات۔ ایک ہی بات
 
Top