محمد حفیظ الرحمٰن
محفلین
غزل
از: محمد حفیظ الرحمٰن
اُن تک مری آہوں کا اثر کیوں نہیں جاتا
تلخابہء دل بن کے شرر کیوں نہیں جاتا
جاتا ہوں جو اُس بزم میں دُکھ اپنا سُنانے
ہمراہ مرے، دیدہء تر کیوں نہیں جاتا
رکھتا ہے ترے عشق کے دھوکے میں جو مجھ کو
یہ پردہ بھی آنکھوں سے اُتر کیوں نہیں جاتا
دن ڈھل گیا سب لوٹ گئے اپنے گھروں کو
پھر صبح کا بھُولا ہوا گھر کیوں نہیں جاتا
اِک آہ سے ہِل جاتا ہے جب عرشِ الٰہی
یہ نظمِ جہاں پل میں بِکھر کیوں نہیں جاتا
ہم دھو چُکے اشکوں سے ہر اِک داغِ تمنا
کیا جانئے یہ داغِ جگر کیوں نہیں جاتا
از: محمد حفیظ الرحمٰن
اُن تک مری آہوں کا اثر کیوں نہیں جاتا
تلخابہء دل بن کے شرر کیوں نہیں جاتا
جاتا ہوں جو اُس بزم میں دُکھ اپنا سُنانے
ہمراہ مرے، دیدہء تر کیوں نہیں جاتا
رکھتا ہے ترے عشق کے دھوکے میں جو مجھ کو
یہ پردہ بھی آنکھوں سے اُتر کیوں نہیں جاتا
دن ڈھل گیا سب لوٹ گئے اپنے گھروں کو
پھر صبح کا بھُولا ہوا گھر کیوں نہیں جاتا
اِک آہ سے ہِل جاتا ہے جب عرشِ الٰہی
یہ نظمِ جہاں پل میں بِکھر کیوں نہیں جاتا
ہم دھو چُکے اشکوں سے ہر اِک داغِ تمنا
کیا جانئے یہ داغِ جگر کیوں نہیں جاتا
مدیر کی آخری تدوین: