غزل : اُن تک میری آہوں کا اثر کیوں نہیں جاتا از: محمد حفیظ الرحمٰن

غزل
از: محمد حفیظ الرحمٰن

اُن تک مری آہوں کا اثر کیوں نہیں جاتا
تلخابہء دل بن کے شرر کیوں نہیں جاتا

جاتا ہوں جو اُس بزم میں دُکھ اپنا سُنانے
ہمراہ مرے، دیدہء تر کیوں نہیں جاتا

رکھتا ہے ترے عشق کے دھوکے میں جو مجھ کو
یہ پردہ بھی آنکھوں سے اُتر کیوں نہیں جاتا

دن ڈھل گیا سب لوٹ گئے اپنے گھروں کو
پھر صبح کا بھُولا ہوا گھر کیوں نہیں جاتا

اِک آہ سے ہِل جاتا ہے جب عرشِ الٰہی
یہ نظمِ جہاں پل میں بِکھر کیوں نہیں جاتا

ہم دھو چُکے اشکوں سے ہر اِک داغِ تمنا
کیا جانئے یہ داغِ جگر کیوں نہیں جاتا​
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
خوب غزل ہے، لگتا ہے کہ ’سمت‘ کا گوشی نظر سے گزر چکا ہے اس بار۔ اسی زمین میں میری غزل بھی ہے۔
اصلاح کی ضرورت نہیں۔ صرف مطلع پر غور کریں نالہ شب تا بہ سحر جانے سے کیا مراد ہے؟
 
اُستادِ محترم جناب اعجاز عبید صاحب۔ غزل کی پسندیدگی کے لئے بے حد شکر گزار ہوں۔ آپ کے ارشاد کے مطابق مطلع پر غور شروع کر دیا ہے،
سمت میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ اب آپ کے احساس دلانے پر توجہ ادھر گئی ہے۔ انشاء اللہ ضرور دیکھوں گا۔ آپ کی مذکورہ غزل میں نے اردو محفل
ہی میں دیکھی تھی آسی سے انسپائرڈ ہو کر ہی یہ غزل کہی ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ اسے ٹائپ کرتے وقت اسے آپ کے نام معنون کروں گا لیکن ٹائپ کرنے
کا مرحلہ میرے لیے اتنا دشوار ہوتا ہے اور میں بار بار مٹا کر اتنی دیر میں ٹائپ کرتا ہوں کہ بعض اوقات بہت ضروری بات بھی بھول جاتا ہوں۔ چنانچہ
نذرِ استاد اعجاز عبید لکھنا بھول گیا۔ معذرت خواہ ہوں۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
غزل
از: محمد حفیظ الرحمٰن

اُن تک مری آہوں کا اثر کیوں نہیں جاتا
یہ نالہء شب تا بہ سحر کیوں نہیں جاتا

جاتا ہوں جو اُس بزم میں دُکھ اپنا سُنانے
ہمراہ مرے، دیدہء تر کیوں نہیں جاتا

رکھتا ہے ترے عشق کے دھوکے میں جو مجھ کو
یہ پردہ بھی آنکھوں سے اُتر کیوں نہیں جاتا

دن ڈھل گیا سب لوٹ گئے اپنے گھروں کو
پھر صبح کا بھُولا ہوا گھر کیوں نہیں جاتا

اِک آہ سے ہِل جاتا ہے جب عرشِ الٰہی
یہ نظمِ جہاں پل میں بِکھر کیوں نہیں جاتا

ہم دھو چُکے اشکوں سے ہر اِک داغِ تمنا
کیا جانئے یہ داغِ جگر کیوں نہیں جاتا​

میرے لئے دل چسپی کی خاص بات اس میں یہ بنی کہ آپ کا اسلوب بھی میرے جیسا لگتا ہے۔
تفصیل سے بات ہو گی، ان شاء اللہ۔
 
جناب محمد یعقوب آسی صاحب۔ یہ تو میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ آپ میرے اسلوب اور اپنے اسلوب میں یکسانیت محسوس کرتے ہیں۔ مجھے بڑی خوشی ہے کہ آپ نے میری غزل کی طرف توجہ فرمائی- میں خود بھی یہ چاہتا تھا لیکن خود کہتے ہوئے اچھا نہیں لگتا تھا۔ آپ بہت گہری نظر سے غزلوں کو دیکھتے ہیں اور جو تنقید کرتے ہیں اس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ اس طرح محترم اعجاز عبید صاحب کے ساتھ ساتھ آپ بھی میری غزلوں کو تنقیدی نظر سے دیکھ لیں گے تو مجھے بہت فایئدہ ہوگا۔ میں آپ پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالوں گا کیونکہ میں بہیت کم کہتا ہوں۔
 

عظیم

محفلین
خوب غزل ہے، لگتا ہے کہ ’سمت‘ کا گوشی نظر سے گزر چکا ہے اس بار۔ اسی زمین میں میری غزل بھی ہے۔
اصلاح کی ضرورت نہیں۔ صرف مطلع پر غور کریں نالہ شب تا بہ سحر جانے سے کیا مراد ہے؟

اور بابا کیا جانئے کہ داغ جگر کیوں نہیں جاتا ۔ یہ کی بجائے کہ زیادہ مناسب نہیں ہو گا ؟ کیا میں ٹھیک سمجھا ؟

اور بابا آہ بھر کے دکھاؤں

اک آہ سے ہل جائے اگر عرشِ الہی
پھر نظمِ جہاں آہ بکھر کیوں نہیں جاتا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اور بابا کیا جانئے کہ داغ جگر کیوں نہیں جاتا ۔ یہ کی بجائے کہ زیادہ مناسب نہیں ہو گا ؟ کیا میں ٹھیک سمجھا ؟

اور بابا آہ بھر کے دکھاؤں

اک آہ سے ہل جائے اگر عرشِ الہی
پھر نظمِ جہاں آہ بکھر کیوں نہیں جاتا
’کہ‘ بطور دو حرفی ’کے‘ کی طرح لانا پڑے گا، جو غلط ہے۔ اسی لئے شاید حفیظ نے ’یہ‘ استعمال کیا ہے۔
عرش الٰہی والے شعر میں تمہاری اصلاح بھی غلط نہیں۔ لیکن مفہوم تھوڑا سا بدل جاتا ہے۔
 
Top