محمد تابش صدیقی
منتظم
اُٹھا نہ شورشِ وہم و قیاس آنکھوں سے
جو سچ ہے سن مِری زخمی اداس آنکھوں سے
وہ ایک موتی جو دل میں چھپا کے رکھا تھا
پھسل گیا وہ مِری بد حواس آنکھوں سے
نہ اب وہ حُسنِ نظر، نے کشش نظارے میں
اتر گیا جو حیا کا لباس آنکھوں سے
تِری دعائے سحر کا عِوض نہیں، لیکن
لکھا ہے میں نے بھی حرفِ سپاس آنکھوں سے
وہ چند قطرے ہمیں بھی عطا ہوں اے مالک!
گرا جو کرتے ہیں کچھ خاص خاص آنکھوں سے
وہ عید تھی کہ جُدائی کی دید تھی حاطبؔ
چمک اٹھی تھی نظر کی پیاس آنکھوں سے
٭٭٭
احمد حاطب صدیقی
جو سچ ہے سن مِری زخمی اداس آنکھوں سے
وہ ایک موتی جو دل میں چھپا کے رکھا تھا
پھسل گیا وہ مِری بد حواس آنکھوں سے
نہ اب وہ حُسنِ نظر، نے کشش نظارے میں
اتر گیا جو حیا کا لباس آنکھوں سے
تِری دعائے سحر کا عِوض نہیں، لیکن
لکھا ہے میں نے بھی حرفِ سپاس آنکھوں سے
وہ چند قطرے ہمیں بھی عطا ہوں اے مالک!
گرا جو کرتے ہیں کچھ خاص خاص آنکھوں سے
وہ عید تھی کہ جُدائی کی دید تھی حاطبؔ
چمک اٹھی تھی نظر کی پیاس آنکھوں سے
٭٭٭
احمد حاطب صدیقی