افتخار عارف غزل : اکیلا میں نہیں کل کائنات رقص میں ہے- افتخار عارف

غزل
میانِ عرصۂ موت و حیات رقص میں ہے
اکیلا میں نہیں کل کائنات رقص میں ہے

مزارِ شمس پہ رومی ہیں حجتِ آخر
کہ جو جہاں بھی ہے مرشد کے ساتھ رقص میں ہے

ہر ایک ذرہ، ہر اک پارۂ زمین و زمان
کسی کے حکم پہ، دن ہو کہ رات، رقص میں ہے

اُتاق کنگرۂ عرش کے چراغ کی لو
کسی گلی کے فقیروں کے ساتھ رقص میں ہے

سنائؔی ہوں کہ وہ عطّار ہوں کہ رومیؔ ہوں
ہر اک مقام پہ اک خوش صفات رقص میں ہے

یہ جذب و شوق، یہ وارفتگی، یہ وجد و وفُور
میں رقص میں ہوں، کہ کُل کائنات رقص میں ہے

مجال ہے کوئی جنبش کرے رضا کے بغیر
جو رقص میں ہے، اجازت کے ساتھ رقص میں ہے

میں ایک شمس کی آمد کا منتظر تھا سو اب
مرے وجود کے رومی کی ذات رقص میں ہے

وہ قونیہ ہو ، کہ بغداد ہو کہ سہون ہو
زمین اپنے ستاروں کے ساتھ رقص میں ہے
افتخارعارف
 
آخری تدوین:
Top