غزل : اک اُداسی چھاگئی ہر سوختہ دل اُٹھ گیا - صفی لکھنوی

اک اُداسی چھاگئی ہر سوختہ دل اُٹھ گیا
شمعرو ! اُٹھنے سے تیرے حسنِ محفل اُٹھ گیا

اب زیادہ سختیاں ہم سے نہ اُٹھیں گی فلک !
بارِ غم تھا جس قدر اُٹھنے کے قابل اُٹھ گیا

ہائے جی بھر کے نہ دیکھا دل میں حسرت رہ گئی
ہم تڑپتے رہ گئے ، پہلو سے قاتل اُٹھ گیا

آمدِ صیّاد کی کچھ بندھ گئی ایسی ہوا
شاخِ گل سے باغ میں پائے عنادل اُٹھ گیا

بزمِ ساقی میں ذرا ہشیار بٹیھیں آج مست
کل یہیں پہلو سے میرے شیشۂ دل اُٹھ گیا

ملکِ معنی میں ترا سکہ اگر بیٹھا تو کیا ؟
اس جہاں سے جب صفیؔ غالبؔ سا کامل اُٹھ گیا​
صفیؔ لکھنوی
 
Top