غزل: بات جو کہنی نہیں تھی کہہ گئے ٭ محمد تابش صدیقی

ایک کاوش احباب کے ذوق کی نذر اور نقد و تبصرہ کے لیے حاضر
بات جو کہنی نہیں تھی کہہ گئے
اشک جو بہنے نہیں تھے بہہ گئے

راہِ حق ہر گام ہے دشوار تر
کامراں ہیں وہ جو ہنس کر سہہ گئے

زندگی میں زندگی باقی نہیں
جستجو اور شوق پیچھے رہ گئے

سعیِ پیہم جس نے کی، وہ سرخرو
ہم فقط باتیں ہی کرتے رہ گئے

اے خدا! دل کی زمیں زرخیز کر
ابرِ رحمت تو برس کر بہہ گئے

شاد رہنا ہے جو تابشؔ، شاد رکھ
بات یہ آباء ہمارے کہہ گئے

٭٭٭
محمد تابش صدیقی
 

ہادیہ

محفلین
آخری نصیحت "ابا حضور" نے اچھی کی ۔۔۔اچھی ہے
ایک ہمارے@محمد احمد بھیا ہوتے تھے جن کو کچھ نکما شاعری نے بنا دیا باقی کی کسر اب پوری ہوگئی۔۔ ان کی شادی کی صورت میں۔۔ :(
 
آخری نصیحت "ابا حضور" نے اچھی کی ۔۔۔اچھی ہے
نصیحت ابا حضور کی نہیں، آباء کی یعنی بزرگوں کی ہے۔ :)
ایک ہمارے@محمد احمد بھیا ہوتے تھے جن کو کچھ نکما شاعری نے بنا دیا باقی کی کسر اب پوری ہوگئی۔۔ ان کی شادی کی صورت میں۔۔ :(
اسی لیے میں نے شادی کے بعد شاعری شروع کی۔ :p
 
واہ واہ بھائی زبردست ۔کافی دنوں بات آپ کی غزل آئی ہے۔ایسے ہی اپنی خوبصورت کاوشیں پیش کرتے رہیں اور ڈھیروں داد سمیٹتے رہیں۔:)
بہت شکریہ عدنان بھائی۔ اب شاعر تو ہوں نہیں کہ روز روز غزل لکھ ڈالوں۔
کبھی کوئی احساس گزر جائے اور چار سطریں سیدھی ہو جائیں، تو اساتذہ کی محنت شامل کر کے اس کو غزل کا نام دے دیتا ہوں۔ :)
 
بہت شکریہ عدنان بھائی۔ اب شاعر تو ہوں نہیں کہ روز روز غزل لکھ ڈالوں۔
کبھی کوئی احساس گزر جائے اور چار سطریں سیدھی ہو جائیں، تو اساتذہ کی محنت شامل کر کے اس کو غزل کا نام دے دیتا ہوں۔ :)
بھائی ہم نے کب آپ کو شاعر کے خطاب سے نواز ہے لیکن آپ کی کاوشیں بھی اساتذہ کی استادیوں سے کم نہیں۔:LOL:
 
Top