غزل برائےاصلاح

ان خنک ہواؤں کو کوئی جا کے بتا دے

پتھر ہیں' ہواؤں کا قہر ہم نہیں لیتے


یوں گردش دوراں نے مرمت کی ہماری

اب وحشی اندھیروں سےسحر ہم نہیں لیتے


معلوم نہیں لوگوں کو قیمتِ گریہ

اک بوند کے بدلے میں بحر ہم نہیں لیتے



جاں دیں گے بڑی شوق سے بر سرِمیداں

احسان تلے دب کہ دھر ہم نہیں لیتے


تسلیم ہوئے ہیں فقط تیری رضا پر

پتھر ہی سہی!! خیر! شہر ہم نہیں لیتے
 

الف عین

لائبریرین
قوافی سارے غلط باندھے گئے ہیں سوائے سحر کے۔ قیر شہر دہر وغیرہ میں ہ پر سکون یا جزم ہے۔ فتحہ یا زبر نہیں جب کہ زبر کے ساتھ ہی وزن درست ہوتا ہے۔
خنک میں خ اور ن دونوں پر پیش ہے۔ اسے بھی وزن میں ساکن غلباندھا گیا ہے۔
آخری تینوں اشعار کے اولی مصرعے وزن میں نہیں، آدھے رکن کی کمی ہے
 
Top