غزل برائے اصلاح۔۔۔کہیں ہے رنگِ یگانہ ، کہیں پہ طرزِ میر

منذر رضا

محفلین
السلام علیکم، اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے
الف عین ، عظیم ، یاسر شاہ
فلسفی

دیارِ درد ِِ محبت کے حکمراں ہیں ہم
یہ مت سمجھ کہ تری طرح رائگاں ہیں ہم
ترے نصیب کی برکت کہ ہم کو پایا ہے
وگرنہ خلق سے مثلِ گہر نہاں ہیں ہم
فنا کی منزلِ مقصود پا چکے ہیں ہم
جہاں جہاں تری ہستی وہاں وہاں ہیں ہم
ہمارے دم سے ہی بزمِ جہاں میں رونق ہے
تو کہیے باعثِ آرائشِ جہاں ہیں ہم
رہِ وفا کے کوئی عام راہ رو تو نہیں
یہ مرتبہ ہے کہ سالارِ کارواں ہیں ہم
کہیں ہے رنگِ یگانہ، کہیں پہ طرزِ میر
سخن میں بھی بخدا عکسِ رفتگاں ہیں ہم
بس ایک وعدے کی تکمیل کے لیے منذر
رہِ وفا پہ ازل سے رواں دواں ہیں ہم
 

عظیم

محفلین
دیارِ درد ِِ محبت کے حکمراں ہیں ہم
یہ مت سمجھ کہ تری طرح رائگاں ہیں ہم
۔۔۔۔۔دیار کے ساتھ حکمراں ساتھ نہیں دے رہا، سلطنت وغیرہ پر حکمرانی کی جاتی ہے۔ اس کی جگہ آپ 'پاسباں' استعمال کر سکتے ہیں

ترے نصیب کی برکت کہ ہم کو پایا ہے
وگرنہ خلق سے مثلِ گہر نہاں ہیں ہم
۔۔۔۔۔نصیب کی برکت عجیب لگ رہا ہے، برکت کی جگہ کوئی اور لفظ لا کر دیکھیں
اور گہر ہمیشہ نہاں بھی نہیں رہتا۔ تلاش کر لیا جاتا ہے

فنا کی منزلِ مقصود پا چکے ہیں ہم
جہاں جہاں تری ہستی وہاں وہاں ہیں ہم
۔۔۔پہلا مصرع بہت خوب! دوسرے مصرع میں 'ہے' کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ مثلاً جہاں جہاں تری ہستی ہے وہاں وہاں ہم ہیں
اور شعر بھی شاید تصوف یا فلسفے سے متعلق ہے، اس لیے سمجھ نہیں پا رہا

ہمارے دم سے ہی بزمِ جہاں میں رونق ہے
تو کہیے باعثِ آرائشِ جہاں ہیں ہم
۔۔۔۔۔بہت اچھا ہے

رہِ وفا کے کوئی عام راہ رو تو نہیں
یہ مرتبہ ہے کہ سالارِ کارواں ہیں ہم
۔۔۔۔۔یہ بھی خوب ہے!

کہیں ہے رنگِ یگانہ، کہیں پہ طرزِ میر
سخن میں بھی بخدا عکسِ رفتگاں ہیں ہم
۔۔۔۔۔'کہیں' سے آپ کی طرف اشارہ نہیں ہوتا یعنی یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کسی جگہ رنگ یگانہ ہے اور کسی جگہ رنگ میر
میرے خیال میں 'کبھی ہے' کر لیں اور دوسرے ٹکڑے میں بھی 'پہ' کی جگہ اگر 'ہے' لے آئیں؟
دوسرے مصرع میں 'بھی بخدا' کا حصہ مجھے رواں نہیں لگ رہا

بس ایک وعدے کی تکمیل کے لیے منذر
رہِ وفا پہ ازل سے رواں دواں ہیں ہم
۔۔۔۔۔تکمیل وعدے کے ساتھ کچھ نیا پن لیے ہوئے ہے، اگر کسی اور طرح ممکن ہے تو کوشش کریں ورنہ میرے خیال میں چل سکتا ہے
 
السلام علیکم، اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے
الف عین ، عظیم ، یاسر شاہ
فلسفی

دیارِ درد ِِ محبت کے حکمراں ہیں ہم
یہ مت سمجھ کہ تری طرح رائگاں ہیں ہم
ترے نصیب کی برکت کہ ہم کو پایا ہے
وگرنہ خلق سے مثلِ گہر نہاں ہیں ہم
فنا کی منزلِ مقصود پا چکے ہیں ہم
جہاں جہاں تری ہستی وہاں وہاں ہیں ہم
ہمارے دم سے ہی بزمِ جہاں میں رونق ہے
تو کہیے باعثِ آرائشِ جہاں ہیں ہم
رہِ وفا کے کوئی عام راہ رو تو نہیں
یہ مرتبہ ہے کہ سالارِ کارواں ہیں ہم
کہیں ہے رنگِ یگانہ، کہیں پہ طرزِ میر
سخن میں بھی بخدا عکسِ رفتگاں ہیں ہم
بس ایک وعدے کی تکمیل کے لیے منذر
رہِ وفا پہ ازل سے رواں دواں ہیں ہم
السلام علیکم منذر بھائی۔
دیارِ درد ِِ محبت کے حکمراں ہیں ہم
یہ مت سمجھ کہ تری طرح رائگاں ہیں ہم

اس میں آپ کس کو رائگاں کہنا چاہ رہے ہیں میرے خیال سے دنیا میں کوئی ہستی بھی رائگاں نہیں دوسرے مصرعے کا مطلب میری ناقص عقل کچھ اور سمجھ رہی ہے اگر آپ محبوب کو مخاطب کر رہے ہیں تو شاید مناسب نہیں کیونکہ محبوب رائگاں نہیں ہوتا شاعر کے جذبات کی رو سے۔ اس مصرعے کو یوں کر لیا جائے تو شاید اچھا لگے لیکن اساتذہ بہتر جانتے ہیں
دیارِ درد ِِ محبت کے حکمراں ہیں ہم
یہ مت سمجھ کہ کسی طرح رائگاں ہیں ہم۔

لیکن اس میں ک کے تقرار سے تنافر آ جاتا ہے
یہ مت سمجھنا کسی طرح رائگاں ہیں ہم۔
اس طرح شاید ٽھیک ہو
ترے نصیب کی برکت کہ ہم کو پایا ہے
وگرنہ خلق سے مثلِ گہر نہاں ہیں ہم

اگر اس شعر کو یوں کر لیا جائے
ترے نصیب کی برکت کہ پا لیا تُو نے
وگرنہ خلق میں، مثلِ گہر،نہاں ہیں ہم


فنا کی منزلِ مقصود پا چکے ہیں ہم
جہاں جہاں تری ہستی وہاں وہاں ہیں ہم

اس شعر کی مجھے سمجھ نہیں آئی دولختی محسوس ہوتی ہے۔
ہمارے دم سے ہی بزمِ جہاں میں رونق ہے
تو کہیے باعثِ آرائشِ جہاں ہیں ہم

دونوں مصرعوں میں "جہاں "اچھا نہیں لگ رہا
رہِ وفا کے کوئی عام راہ رو تو نہیں
یہ مرتبہ ہے کہ سالارِ کارواں ہیں ہم

پہلے مصرعے میں وہ روانی نہیں لگ رہی جو ہونی چاہیے تھی۔

کہیں ہے رنگِ یگانہ، کہیں پہ طرزِ میر
سخن میں بھی بخدا عکسِ رفتگاں ہیں ہم

درست محسوس ہوتا ہے ایک ایک بات ضرور ہے کہ ماضی کے شاعر سخن میں تاقیامت زندہ رہیں گے
بس ایک وعدے کی تکمیل کے لیے منذر
رہِ وفا پہ ازل سے رواں دواں ہیں ہم

اچھا شعر ہے تمام احباب سے درخواست ہے کہ محسوس نہ کیجیے گا میں نے محض سیکھنے کے لئے تنقید کی ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم -سجاد صاحب مزہ آگیا -یوں ہی لکھتے رہیے -
فنا کی منزلِ مقصود پا چکے ہیں ہم
جہاں جہاں تری ہستی وہاں وہاں ہیں ہم

اس شعر کی مجھے سمجھ نہیں آئی دولختی محسوس ہوتی ہے۔

یہاں دو لختی نہیں -یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم فنا فی المحبوب ہیں لہٰذا جہاں جہاں محبوب ہیں وہاں وہاں ہم ہیں -اگرچہ مصرعین میں "ہیں ہم "کی تکرار بھلی نہیں لگ رہی -

ہمارے دم سے ہی بزمِ جہاں میں رونق ہے
تو کہیے باعثِ آرائشِ جہاں ہیں ہم

دونوں مصرعوں میں "جہاں "اچھا نہیں لگ رہا

"جہاں" کی تکرار بھلی نہیں لگ رہی لیکن اگر دوسرے مصرع کی ابتداء میں "تو "کی جگہ "یوں " کر دیں تو شاید بہتر لگے یعنی :

ہمارے دم سے ہی بزمِ جہاں میں رونق ہے
یوں کہیے باعثِ آرائشِ جہاں ہیں ہم
 
السلام علیکم -سجاد صاحب مزہ آگیا -یوں ہی لکھتے رہیے -


یہاں دو لختی نہیں -یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم فنا فی المحبوب ہیں لہٰذا جہاں جہاں محبوب ہیں وہاں وہاں ہم ہیں -اگرچہ مصرعین میں "ہیں ہم "کی تکرار بھلی نہیں لگ رہی -



"جہاں" کی تکرار بھلی نہیں لگ رہی لیکن اگر دوسرے مصرع کی ابتداء میں "تو "کی جگہ "یوں " کر دیں تو شاید بہتر لگے یعنی :

ہمارے دم سے ہی بزمِ جہاں میں رونق ہے
یوں کہیے باعثِ آرائشِ جہاں ہیں ہم
سر شکریہ
 
Top