غزل برائے اصلاح۔۔۔۔اے بادِ بہاری تجھے غنچے کی قسم ہے

منذر رضا

محفلین
السلام علیکم۔۔۔اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے

الف عین
محمد وارث
سید عاطف علی
یاسر شاہ
محمد تابش صدیقی

صد شکر کہ دل بن گیا دلبر کا ٹھکانا
تم کو بھی مبارک ہو مرے دل میں سمانا
تم آ کہ مری قبر پہ اک شمع جلانا
اور اپنے تبسم سے وہاں پھول کھلانا
اے دوست ملے تجھ کو اگر یار تو کہنا
اتنا بھی تو اچھا نہیں عاشق کو ستانا
رہنے دو ابھی بزم میں وہ مہر لقا ہے
محفل سے چلا جائے تو پھر شمع جلانا
اے دیدۂ گریاں! ابھی جاناں ہے یہیں پر
تاریک شبِ ہجر میں یہ اشک بہانا
اے بادِ بہاری! تجھے غنچے کی قسم ہے
تو چھوڑ کہ گلشن کبھی زنداں میں نہ آنا
تاریک ہے شب اور مہِ کامل نہیں نکلا
چہرے سے مری جاں! ذرا گیسو تو ہٹانا

شکریہ۔۔۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
تم آ کہ مری قبر پہ اک شمع جلانا
اور اپنے تبسم سے وہاں پھول کھلانا
.. تم آ کے؟
قبر پر تبسم کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی

اے دوست ملے تجھ کو اگر یار تو کہنا
اتنا بھی تو اچھا نہیں عاشق کو ستانا
... دونوں مصرعوں میں 'نا' پر اختتام قافیے کا شائبہ دیتا ہے، پہلے مصرع کے الفاظ بدل دو

رہنے دو ابھی بزم میں وہ مہر لقا ہے
محفل سے چلا جائے تو پھر شمع جلانا
... ماہ لقا ہی کہو نا!

اے دیدۂ گریاں! ابھی جاناں ہے یہیں پر
تاریک شبِ ہجر میں یہ اشک بہانا
... یہیں 'پر' میں 'پر' کی ضرورت نہیں
تاریک کی معنویت؟

اے بادِ بہاری! تجھے غنچے کی قسم ہے
تو چھوڑ کہ گلشن کبھی زنداں میں نہ آنا
.... غنچے کی ہی قسم کیوں؟
'چھوڑ کے' سمجھ کر کہہ رہا ہوں، اگر 'کہ' ہی درست ہے تو شعر سمجھ نہیں سکا

تاریک ہے شب اور مہِ کامل نہیں نکلا
چہرے سے مری جاں! ذرا گیسو تو ہٹانا
... درست
 

منذر رضا

محفلین
الف عین صاحب۔۔۔سب سے پہلے تو بے حد معذرت کہ میں نے کئی جگہ کے کی جگہ کہ لکھ دیا۔۔۔۔مثلا دوسرا اور آخری سے پہلے والا شعر۔۔۔

قبر پر تبسم کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی

حضور جفا پیشہ معشوق کے قبر پر فاتحانہ مسکرانے کی جانب اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔

بندے کا مقصد تو شبِ ہجر کی تاریکی کی طرف اشارہ کرنے کا تھا۔۔۔۔


غنچے کی ہی قسم کیوں

حضور اس لیے کہ بندہ کی رائے میں غنچہ صبا کے نازوں میں پلا ہوتا ہے۔۔۔مراد یہ کہ صبا ہی تو اسے جوبن پر لاتی ہے۔۔۔اگر اس میں کوئی غلطی ہے تو رہنمائی فرمائیے۔۔۔آپ کا ممنونِ احسان رہوں گا۔۔۔
شکریہ!
 

الف عین

لائبریرین
الف عین صاحب۔۔۔سب سے پہلے تو بے حد معذرت کہ میں نے کئی جگہ کے کی جگہ کہ لکھ دیا۔۔۔۔مثلا دوسرا اور آخری سے پہلے والا شعر۔۔۔



حضور جفا پیشہ معشوق کے قبر پر فاتحانہ مسکرانے کی جانب اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔


بندے کا مقصد تو شبِ ہجر کی تاریکی کی طرف اشارہ کرنے کا تھا۔۔۔۔




حضور اس لیے کہ بندہ کی رائے میں غنچہ صبا کے نازوں میں پلا ہوتا ہے۔۔۔مراد یہ کہ صبا ہی تو اسے جوبن پر لاتی ہے۔۔۔اگر اس میں کوئی غلطی ہے تو رہنمائی فرمائیے۔۔۔آپ کا ممنونِ احسان رہوں گا۔۔۔
شکریہ!
سمجھا تو میں بھی یہی تھا لیکن سب تمہاری یا میری طرح عقل مند نہیں ہوتے! یہ سمجھنے کے لیے کچھ قرینہ ہونا چاہیے، کچھ ہلکا سا اشارہ۔ جو کہ موجود نہیں
 

فلسفی

محفلین
الف عین صاحب۔۔۔حضور پھر آپ ہی کوئی تبدیلی فرما دیجئے۔۔۔۔
ازراہ تفنن: اس طرح تو سر خود اپنی غزل نہ کہہ دیں۔

آپ خود کوشش کیجیے۔ مشق سمجھ کر ہی کیجیے، اسی طرح بہتری آئے گی کلام میں۔ سر کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ متبادل مصرعہ بتانے کے بجائے مبتدی کو موقع دیا جائے کہ وہ خود سوچ کر لکھے۔ میں نے تو کم از کم سر سے یہی سیکھا ہے۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ازراہ تفنن: اس طرح تو سر خود اپنی غزل نہ کہہ دیں۔

آپ خود کوشش کیجیے۔ مشق سمجھ کر ہی کیجیے، اسی طرح بہتری آئے گی کلام میں۔ سر کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ متبادل مصرعہ بتانے کے بجائے مبتدی کو موقع دیا جائے کہ وہ خود سوچ کر لکھے۔ میں نے تو کم از کم سر سے یہی سیکھا ہے۔
اس کے علاوہ میری خود غرضی بھی ایک وجہ ہے کہ میں مزید وقت ضائع کرنے سے بچ جاتا ہوں!!
 
Top