مہدی نقوی حجاز
محفلین
اب جو بچھڑوں تو کہانی میں مرا نام ملے
تب کہیں جا کہ مرے عشق کو انجام ملے
سرد مہری کا تقاضا تھا مجھے بھی لیکن
خوں مرا کھول اٹھا جب ترے پیغام ملے
ایسے انسان بچھڑنے کے لیے ملتے ہیں
جیسے ہر رات سے ہر روز دکھی شام ملے
وادی عشق میں یہ حسن تفاوت دیکھو
شیخ کو رند، جلی نام کو گم نام ملے
چاہے تو کتنا ہی ہو ناصح دانا لیکن
تو مرے سامنے بولے گا مجھے جام ملے
جیسے چاہوں اسے، مہدی میں بنا لوں لیکن
شرط اتنی ہے کہ دل اسکا مجھے خام ملے
مہدی نقوی حجازؔ