غزل برائے اصلاح۔۔۔ اب جو بچھڑوں تو کہانی میں مرا نام ملے۔۔

اب جو بچھڑوں تو کہانی میں مرا نام ملے​
تب کہیں جا کہ مرے عشق کو انجام ملے​
سرد مہری کا تقاضا تھا مجھے بھی لیکن​
خوں مرا کھول اٹھا جب ترے پیغام ملے​
ایسے انسان بچھڑنے کے لیے ملتے ہیں​
جیسے ہر رات سے ہر روز دکھی شام ملے​
وادی عشق میں یہ حسن تفاوت دیکھو​
شیخ کو رند، جلی نام کو گم نام ملے​
چاہے تو کتنا ہی ہو ناصح دانا لیکن​
تو مرے سامنے بولے گا مجھے جام ملے​
جیسے چاہوں اسے، مہدی میں بنا لوں لیکن​
شرط اتنی ہے کہ دل اسکا مجھے خام ملے​
مہدی نقوی حجازؔ​
 

احمد بلال

محفلین
واہ ۔اچھی غزل ہے۔
دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ " تقاضا" کس معنی میں ڈالا گیا ہے سمجھ نہیں آیا۔ بے محل سا لگ رہا ہے۔ اور تیسرے شعر میں کہا ایسے لوگ، یہ واضح نہیں ہوا کہ کیسے لوگ۔
 

الف عین

لائبریرین
تقاضا مجھے تو درست ہی لگ رہا ہے۔ البتہ اس شعر میں صیغے کا چکر ہے۔ ’کھول اٹھے‘ ہونا چاہئے۔ کا پی کر لیا ہے
 
تقاضا مجھے تو درست ہی لگ رہا ہے۔ البتہ اس شعر میں صیغے کا چکر ہے۔ ’کھول اٹھے‘ ہونا چاہئے۔ کا پی کر لیا ہے
صیغہ تو میں نے ماضی رکھا تھا۔۔۔ خیر اب دیکھتا ہوں تو یہ بھی ٹھیک لگتا ہے۔۔۔ شکریہ۔۔ انتظار رہے گا،
 

الف عین

لائبریرین
اب جو بچھڑوں تو کہانی میں مرا نام ملے
تب کہیں جا کہ مرے عشق کو انجام ملے
//شعر واضح تو نہیں۔کہانی میں نام سے کیا مراد ہے؟
یہاں املا کی غلطی ہے شاید
تب کہیں جا کے مرے عشق کو انجام ملے

سرد مہری کا تقاضا تھا مجھے بھی لیکن
خوں مرا کھول اٹھا جب ترے پیغام ملے
یہاں تقاضا کا محل؟ بہتر ہو کہ یوں کہو
سرد مہری کی شکایت تھی مجھے بھی لیکن
خوں مرا کھول اٹھے، جب ترا پیغام ملے

ایسے انسان بچھڑنے کے لیے ملتے ہیں
جیسے ہر رات سے ہر روز دکھی شام ملے
//درست

وادی عشق میں یہ حسن تفاوت دیکھو
شیخ کو رند، جلی نام کو گم نام ملے
//جلی نام؟ اس کی جگہ مشہور نہیں آ سکتا؟
شیخ کو رند، تو مشہور کو گم نام ملے

چاہے تو کتنا ہی ہو ناصح دانا لیکن
تو مرے سامنے بولے گا مجھے جام ملے
//یہ شعر بھی واضح نہیں۔ کچھ دوسرا کہو۔

جیسے چاہوں اسے، مہدی میں بنا لوں لیکن
شرط اتنی ہے کہ دل اسکا مجھے خام ملے
//درست
 
Top