غزل برائے اصلاح۔۔۔ دُریاں

عینی خیال

محفلین
اب ہمارے درمیاں نہ فاصلے نہ دُریاں​
ختم دیکھا ہوگئیں نہ عشق کی مجبوریاں​

چل رہا ہے ساتھ ساتھ قافلہ بھی ہم سفر​
روشنی میں ڈھل گئیں ہیں وقت کی بے نوریاں​

وہ زمانے اور تھے جب مجنووں کے دور تھے​
اب رہیں نہ سوہنیاں اور نہ رہیں قسطوریاں​

پیار میں ڈوبا ہوا پیکر نہیں میں بھولتی​
ذھن سے جاتی نہیں ہیں وہ نگاہیں بھوریاں​

اپنے ہاتھوں سے کھلائیں تھیں جو تم نے اے خیال​
یاد آتیں ہیں مجھے ہائے وہ تیری چُوریاں​
 

الف عین

لائبریرین
کچھ مصرعے درست تقطیع نہیں ہوتے۔ ذرا درست کرنے کی کوشش کرو۔ بعد میں دیکھتا ہوں۔ بلکہ یہی ایک مصرع خارج از بحر ہے
چل رہا ہے ساتھ ساتھ قافلہ بھی ہم سفر
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اب ہمارے درمیاں نہ فاصلے نہ دُریاں​
ختم دیکھا ہوگئیں نہ عشق کی مجبوریاں​
÷÷ نہ ۔۔۔نا ۔۔۔ ہونا چاہئے۔۔۔مصرع ثانی میں
چل رہا ہے ساتھ ساتھ قافلہ بھی ہم سفر​
روشنی میں ڈھل گئیں ہیں وقت کی بے نوریاں​
۔۔۔چل رہا ہے میں بے وزنی مجھے محسوس نہیں ہوئی، لیکن یہ تقطیع نہ آنے کا کمال ہے۔۔۔​
۔۔۔بے نوریاں میں بے کا ے گرنے سے مصرع رواں نہیں ہے۔۔ پھر مصرع ثانی کی بات ہوئی۔۔
وہ زمانے اور تھے جب مجنووں کے دور تھے​
اب رہیں نہ سوہنیاں اور نہ رہیں قسطوریاں​
۔۔۔ نہ رہیں قسطوریاں کا نہ ۔۔۔ لمبا ہوگیا ہے۔۔۔ غلطی ہے۔۔۔
پیار میں ڈوبا ہوا پیکر نہیں میں بھولتی​
ذھن سے جاتی نہیں ہیں وہ نگاہیں بھوریاں​
۔۔۔بھوریاں۔۔۔ قدرے پنجابی لگتا ہے۔۔۔ اردو میں استعمال ہوتا ہے تو کہاں، یاد نہیں۔۔۔
اپنے ہاتھوں سے کھلائیں تھیں جو تم نے اے خیال​
یاد آتیں ہیں مجھے ہائے وہ تیری چُوریاں​
۔۔۔۔ کھلائیں سے ہی پتہ چل گیا آپ کا شعر کس قافیے کو استعمال کرے گا۔۔۔ ایسے اشعار کو میں حد سے زیادہ سادہ یا Too simple کہتا ہوں۔۔۔​
 
Top