سر الف عین اس غزل کی اصلاح فرما دیجئے۔

ڈھیر خوابوں کا اور وقت نہیں
ہوئی ہے کوئی پیش رفت ؟ نہیں

بات کرنے سے پہلے بول پڑے
یار وہ اتنا بھی کرخت نہیں

اپنا اک ہاتھ ہے مرے سر پر
ابر بادل کوئی درخت نہیں

زندگی میرے خواب ہیں اونچے
چاہے تجھ پہ مری گرفت نہیں

وہ مقدر میں ہے ہمارے ؟ یا
ابھی جاگا ہمارا بخت نہیں ؟

اتنی جلدی کیوں ہار مان گیا؟
اب لب و لہجہ تیرا سخت نہیں

پھول پاؤں کے کانٹے جیسے ہیں
جس جگہ بیٹھا ہوں وہ تخت نہیں

ہر کوئی اپنا رونا روتا ہے
ورنہ حالات اتنے سخت نہیں

ہم سے عمران ملنا چھوڑ گیا
کہتا ہے میرے پاس وقت نہیں

شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
قوافی غلط ہیں۔ وقت اور تخت قوافی نہیں ہو سکتے۔ رخت، درخت، بخت درست قوافی ہیں۔ 'خت' کے علاوہ دوسرے قوافی نکال دیں تب دیکھی جائے گی
 
قوافی غلط ہیں۔ وقت اور تخت قوافی نہیں ہو سکتے۔ رخت، درخت، بخت درست قوافی ہیں۔ 'خت' کے علاوہ دوسرے قوافی نکال دیں تب دیکھی جائے گی
سر الف عین ان دو اشعار کو میں نے الگ سے قطعہ بنا دیا ہے۔ کیوں کہ پیش رفت اور گرفت ہم قافیہ ہیں۔ غزل کا مقطع حذف کر دیا ہے۔
ڈھیر خوابوں کا اور وقت نہیں
ہوئی ہے کوئی پیش رفت ؟ نہیں
زندگی میرے خواب ہیں اونچے
چاہے تجھ پر مری گرفت نہیں۔
 
قوافی غلط ہیں۔ وقت اور تخت قوافی نہیں ہو سکتے۔ رخت، درخت، بخت درست قوافی ہیں۔ 'خت' کے علاوہ دوسرے قوافی نکال دیں تب دیکھی جائے گی
یہ سر الف عین غزل ہے۔

خوف کا سایہ ہے درخت نہیں
میری آرام گاہ تخت نہیں

بات کرنے سے پہلے بول پڑے
یار وہ اتنا بھی کرخت نہیں

اپنا اک ہاتھ تھا مرے سر پر
ابر بادل کوئی درخت نہیں

وہ مقدر میں ہے ہمارے ؟ یا
ابھی جاگا ہمارا بخت نہیں ؟

اتنی جلدی کیوں ہار مان گیا؟
اب لب و لہجہ تیرا سخت نہیں

پھول پاؤں کے کانٹے جیسے ہیں
جس جگہ بیٹھا ہوں وہ تخت نہیں

ہر کوئی اپنا رونا روتا ہے
ورنہ حالات اتنے سخت نہیں

یہ کوئی بھی سمیٹ سکتا ہے
اتنا عمران لخت لخت نہیں
 

الف عین

لائبریرین
قوافی درست ہو گئے ہیں غزل کے لیکن قطرے کے نہیں۔ پہلے مصرع میں قافلہ ردیف کی قید نکالی بھی جا سکتی ہے۔
غزل
خوف کا سایہ ہے درخت نہیں
میری آرام گاہ تخت نہیں
/// مطلب؟

بات کرنے سے پہلے بول پڑے
یار وہ اتنا بھی کرخت نہیں
/// کرخت لہجہ ہو سکتا ہے، کوئی شخص نہیں ۔ اور اگر ہو بھی تو اس کی ایسی خصوصیت نہیں ہوتی کہ بولنے سے پہلے بول پڑنے کا جادو دکھائے!

اپنا اک ہاتھ تھا مرے سر پر
ابر بادل کوئی درخت نہیں
/// ابر اور بادل ایک ہی شے ہے۔

وہ مقدر میں ہے ہمارے ؟ یا
ابھی جاگا ہمارا بخت نہیں ؟
/// ٹھیک

اتنی جلدی کیوں ہار مان گیا؟
اب لب و لہجہ تیرا سخت نہیں
///ٹھیک

پھول پاؤں کے کانٹے جیسے ہیں
جس جگہ بیٹھا ہوں وہ تخت نہیں
/// سمجھ نہیں سکا

ہر کوئی اپنا رونا روتا ہے
ورنہ حالات اتنے سخت نہیں
/// درست

یہ کوئی بھی سمیٹ سکتا ہے
اتنا عمران لخت لخت نہیں
/// ٹھیک
مختصر یہ کہ قافیے بندی درست ہے، لیکن یہ شاعری نہیں
 
قوافی درست ہو گئے ہیں غزل کے لیکن قطرے کے نہیں۔ پہلے مصرع میں قافلہ ردیف کی قید نکالی بھی جا سکتی ہے۔
غزل
خوف کا سایہ ہے درخت نہیں
میری آرام گاہ تخت نہیں
/// مطلب؟

بات کرنے سے پہلے بول پڑے
یار وہ اتنا بھی کرخت نہیں
/// کرخت لہجہ ہو سکتا ہے، کوئی شخص نہیں ۔ اور اگر ہو بھی تو اس کی ایسی خصوصیت نہیں ہوتی کہ بولنے سے پہلے بول پڑنے کا جادو دکھائے!

اپنا اک ہاتھ تھا مرے سر پر
ابر بادل کوئی درخت نہیں
/// ابر اور بادل ایک ہی شے ہے۔

وہ مقدر میں ہے ہمارے ؟ یا
ابھی جاگا ہمارا بخت نہیں ؟
/// ٹھیک

اتنی جلدی کیوں ہار مان گیا؟
اب لب و لہجہ تیرا سخت نہیں
///ٹھیک

پھول پاؤں کے کانٹے جیسے ہیں
جس جگہ بیٹھا ہوں وہ تخت نہیں
/// سمجھ نہیں سکا

ہر کوئی اپنا رونا روتا ہے
ورنہ حالات اتنے سخت نہیں
/// درست

یہ کوئی بھی سمیٹ سکتا ہے
اتنا عمران لخت لخت نہیں
/// ٹھیک
مختصر یہ کہ قافیے بندی درست ہے، لیکن یہ شاعری نہیں
اوکے سر شکریہ۔۔۔ اسے مزید بہتر کرنے کی کوشش کروں گا۔
 
Top