منذر رضا
محفلین
الف عین
یاسر شاہ
سید عاطف علی
بختِ خفتہ کو یوں جگاتے ہیں
خود میں تیرا وجود پاتے ہیں
تنگ ہیں سب ہمارے نالوں سے
تنکے سر پر فلک اٹھاتے ہیں
ہیں پریشاں چمن میں برگِ گل
مجھ کو دل کا پتا بتاتے ہیں
ہیں بجا تیرے ناز لیکن لوگ
اب تہِ خاک مجھ کو پاتے ہیں
سنگ باری ہے شغلِ طفلاں لیک
کیوں نمک کے لیے رلاتے ہیں
کیجیے ضبطِ غم کہ یہ آنسو
آتشِ درد کو بجھاتے ہیں
ہم کو دریائے وقت میں پھینکا
اور اب تیرنا سکھاتے ہیں
ایک سیلِ شراب ہے دل میں
وہ نگاہوں سے خم پلاتے ہیں
یاسر شاہ
سید عاطف علی
بختِ خفتہ کو یوں جگاتے ہیں
خود میں تیرا وجود پاتے ہیں
تنگ ہیں سب ہمارے نالوں سے
تنکے سر پر فلک اٹھاتے ہیں
ہیں پریشاں چمن میں برگِ گل
مجھ کو دل کا پتا بتاتے ہیں
ہیں بجا تیرے ناز لیکن لوگ
اب تہِ خاک مجھ کو پاتے ہیں
سنگ باری ہے شغلِ طفلاں لیک
کیوں نمک کے لیے رلاتے ہیں
کیجیے ضبطِ غم کہ یہ آنسو
آتشِ درد کو بجھاتے ہیں
ہم کو دریائے وقت میں پھینکا
اور اب تیرنا سکھاتے ہیں
ایک سیلِ شراب ہے دل میں
وہ نگاہوں سے خم پلاتے ہیں