غزل برائے اصلاح : آ رہی ہیں آج یادیں اپنے گاؤں کی مجھے

السلام علیکم!
سر الف عین عظیم شاہد شاہنواز محمّد احسن سمیع :راحل: بھائی اصلاح فرمائیں۔۔۔

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

"آ رہی ہیں آج یادیں اپنے گاؤں کی مجھے "
"کیوں ؟ " "ضرورت ہے بزرگوں کی دعاؤں کی مجھے "

میں اٹھا کر ایک پودا دشت میں پھرتا رہا
تھی ضرورت دھوپ کی اسکو تو چھاؤں کی مجھے

خواب میں کشمیر کے اک گھر میں میں موجود تھا
واں سنائی دے رہی تھیں چیخیں ماؤں کی مجھے

کربلا سے آنے والے جوتیاں اپنی اتار
چاہئے ہے وہ مبارک دھول پاؤں کی مجھے

اس خلا میں اے دیے تجھ کو جلانے کے لئے
آ پڑی آخر ضرورت اُن ہواؤں کی مجھے

غیر کی باتوں میں آ کر دے رہا ہے وہ سزا
اَن کئے سارے گناہوں اور خطاؤں کی مجھے

دھوپ مجھکو چاہئے عمران بڑھنے کے لئے
آرزو ہرگز نہیں پیڑوں کی چھاؤں کی مجھے

شکریہ
 
آخری تدوین:
"آ رہی ہیں آج یادیں اپنے گاؤں کی مجھے "
"کیوں ؟ " "ضرورت ہے بزرگوں کی دعاؤں کی مجھے
پہلا مصرعہ آپ نے واوین میں لکھا ہے، کیا مصرعہ طرح ہے؟
اگر نہیں، تو یادیں کو کسی طرح بصورت یاد باندھیں، زیادہ بہتر لگے گا۔
دوسرے مصرعے کی ساخت آپ نے ایسی رکھی ہے کہ اگر سوالیہ نشان جیسی علامات استعمال نہ ہوں تو مصرعے مطلب بالکل ہی بدل جائے گا۔ سو بہتر ہے اس کو سمپلیفائی کریں۔

خواب میں کشمیر کے اک گھر میں میں موجود تھا
واں سنائی دے رہی تھیں چیخیں ماؤں کی مجھے
ایک تو یہاں "میں میں" کا تنافر کھٹک رہا ہے۔
دوسرے یہ کہ "اک گھر" بھی بھرتی کا معلوم ہوتا ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں۔
خواب میں تھا وادی کشمیر میں موجود میں
اور سنائی دے رہیں تھیں ماوں کی چیخیں مجھے

کربلا سے آنے والے جوتیاں اپنی اتار
چاہئے ہے وہ مبارک دھول پاؤں کی مجھے
دوسرے مصرعے میں وہ کی بجائے یہ سے اشارہ کریں۔ وہ عموما دور کی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ کسی طرح "تیرے پاوں کی دھول" لاسکیں تو شعر اور بہتر ہوجائے گا۔

اس خلا میں اے دیے تجھ کو جلانے کے لئے
آ پڑی آخر ضرورت اُن ہواؤں کی مجھے
اے دیے اتنا اچھا نہیں لگ رہا۔ دوسرے مصرعے اگر ہوا کی طرف "اُن" کہہ کر اشارہ کریں گے تو پھر سوال اٹھے گا کہ "کن" ہواوں کی ضرورت پڑی؟؟؟ ویسے سوال تو یہ بھی اٹھ سکتا ہے کہ کون سا خلا اور کون سا دیا؟ :)
ان خلاوں میں جلانے کے لئے روشن چراغ
آپڑی آخر ضرورت خود ہواوں کی مجھے

غیر کی باتوں میں آ کر دے رہا ہے وہ سزا
اَن کئے سارے گناہوں اور خطاؤں کی مجھے
ان کئے روزمرہ کے خلاف ہے، یہاں ناکردہ گناہ کہا جائے گا۔ مزید یہ کہ گناہوں اور خطاوں کی تکرار بھی مناسب معلوم نہیں ہوتی، یوں محسوس ہوتا ہے کہ بس وزن پورا کیا جارہا ہے۔
جو کبھی کی ہی نہیں، ایسی خطاوں کی مجھے

دعاگو،
راحل۔
 
پہلا مصرعہ آپ نے واوین میں لکھا ہے، کیا مصرعہ طرح ہے؟
اگر نہیں، تو یادیں کو کسی طرح بصورت یاد باندھیں، زیادہ بہتر لگے گا۔
دوسرے مصرعے کی ساخت آپ نے ایسی رکھی ہے کہ اگر سوالیہ نشان جیسی علامات استعمال نہ ہوں تو مصرعے مطلب بالکل ہی بدل جائے گا۔ سو بہتر ہے اس کو سمپلیفائی کریں۔


۔
یہ مکالمہ ہے اس لے واوین کا استعمال کیا۔۔۔
پہلا بندہ کہتا ہے۔۔۔
آرہی ہیں آج یادیں اپنے گاؤں کی مجھے
دوسرا پوچھتا ہے
کیوں ؟
پھر پہلا جواب دیتا ہے
ضرورت ہے بزرگوں کی دعاؤں کی مجھے

اگر پہلے مصرعے یاد لانے کی کوشش کریں تو مصرعے یوں نکل کر آتے ہیں جو پہلے مصرعے کی طرح رواں نہیں۔۔۔ یادیں یعنی جمع کا صیغہ استعمال کرنے کا مقصد ایک یہ بھی ہے کہ شاعر کا وہاں کافی وقت گزرا ہے اور کئی واقعات لمحات اسے یاد آتے ہیں۔۔۔
دیکھئے
آ رہی ہے کیوں بکثرت یاد گاؤں کی مجھے
یا
اس طرح کیوں آ رہی ہے یاد گاؤں کی مجھے
پھر دوسرا مصرعہ یوں کرنا پڑے گا
کیا ضرورت ہے بزرگوں کی دعاؤں کی مجھے

اس طرح شعر کچھ بامعنی اور پر اثر نہیں لگ رہا۔۔۔
پہلی صورت مکالمے کی زیادہ اچھی لگ رہی ہے۔۔۔
آپکی نظر میں کوئی متبادل ہو تو ضرور بتائیں۔۔۔

اگلے اشعار میں اگر " ماؤں کی چیخیں " اور " پاؤں کی دھول " لائیں تو قافیہ میں بگاڑ آتا ہے۔۔۔ میرے خیال میں اتنی گنجائش ہوتی ہے۔۔۔ اور یہاں الفاظ کی یہ ترتیب بری بھی نہیں لگ رہی۔۔۔ اپنی رائے ضرور دیجئے گا۔۔۔
باقی متبادل مصرعے بہت خوب ہیں۔۔۔ ان کے لئے میں آپکا شکر گزار ہوں۔۔۔ امید کرتا ہوں میری بات آپ پر گراں نہیں گزرے گی۔۔۔
آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔۔۔
میں غزل آپکی دی گئی اصلاح کے مطابق دوبارہ پوسٹ کرتا ہوں۔۔۔
دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے۔۔۔

شکریہ
 
آخری تدوین:
پہلا مصرعہ آپ نے واوین میں لکھا ہے، کیا مصرعہ طرح ہے؟
اگر نہیں، تو یادیں کو کسی طرح بصورت یاد باندھیں، زیادہ بہتر لگے گا۔
دوسرے مصرعے کی ساخت آپ نے ایسی رکھی ہے کہ اگر سوالیہ نشان جیسی علامات استعمال نہ ہوں تو مصرعے مطلب بالکل ہی بدل جائے گا۔ سو بہتر ہے اس کو سمپلیفائی کریں۔


ایک تو یہاں "میں میں" کا تنافر کھٹک رہا ہے۔
دوسرے یہ کہ "اک گھر" بھی بھرتی کا معلوم ہوتا ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں۔
خواب میں تھا وادی کشمیر میں موجود میں
اور سنائی دے رہیں تھیں ماوں کی چیخیں مجھے


دوسرے مصرعے میں وہ کی بجائے یہ سے اشارہ کریں۔ وہ عموما دور کی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ کسی طرح "تیرے پاوں کی دھول" لاسکیں تو شعر اور بہتر ہوجائے گا۔


اے دیے اتنا اچھا نہیں لگ رہا۔ دوسرے مصرعے اگر ہوا کی طرف "اُن" کہہ کر اشارہ کریں گے تو پھر سوال اٹھے گا کہ "کن" ہواوں کی ضرورت پڑی؟؟؟ ویسے سوال تو یہ بھی اٹھ سکتا ہے کہ کون سا خلا اور کون سا دیا؟ :)
ان خلاوں میں جلانے کے لئے روشن چراغ
آپڑی آخر ضرورت خود ہواوں کی مجھے


ان کئے روزمرہ کے خلاف ہے، یہاں ناکردہ گناہ کہا جائے گا۔ مزید یہ کہ گناہوں اور خطاوں کی تکرار بھی مناسب معلوم نہیں ہوتی، یوں محسوس ہوتا ہے کہ بس وزن پورا کیا جارہا ہے۔
جو کبھی کی ہی نہیں، ایسی خطاوں کی مجھے

دعاگو،
راحل۔
بہت شکریہ برادرم۔۔۔
 
جناب محترم محمّد احسن سمیع :راحل:

"آ رہی ہیں آج یادیں اپنے گاؤں کی مجھے "
"کیوں ؟ " "ضرورت ہے بزرگوں کی دعاؤں کی مجھے "

یا

اس طرح کیوں آ رہی ہے یاد گاؤں کی مجھے ؟
کیا ضرورت ہے بزرگوں کی دعاؤں کی مجھے ؟

میں اٹھا کر ایک پودا دشت میں پھرتا رہا
تھی ضرورت دھوپ کی اسکو تو چھاؤں کی مجھے

خواب میں تھا وادئِ کشمیر میں موجود میں
اور سنائی دے رہی تھیں چیخیں ماؤں کی مجھے
یا
اور وہاں چیخیں سنائی دیتی تھیں ماؤں کی مجھے
یا
ہر طرف چیخیں سنائی دیتی تھیں ماؤں کی مجھے

کربلا سے آنے والے جوتیاں اپنی اتار
چاہئے ہے یہ مبارک دھول پاؤں کی مجھے
یا
چاہئے یہ دھول تیرے دونوں پاؤں کی مجھے

ان خلاوں میں جلانے کے لئے روشن چراغ
آ پڑی آخر ضرورت خود ہواؤں کی مجھے

غیر کی باتوں میں آ کر دے رہا ہے وہ سزا
جو کبھی کی ہی نہیں، ایسی خطاوں کی مجھے

دھوپ مجھکو چاہئے عمران بڑھنے کے لئے
آرزو ہرگز نہیں پیڑوں کی چھاؤں کی مجھے

شکریہ
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
قوافی پر اعتراض کیا جا سکتا ہے ۔ چھاؤں پاؤں کی آوازیں جمع کے الفاظ دعاؤں، خطاؤں سے مختلف ہیں۔ پھر میری ترجیحات کے مطابق، ممکن ہے اسے میری سنک سمجھا جائے، پاؤں، چھاؤں بطور اسم محض بطور فعل باندھنا اور چھانا پانا مصدر سے بطور فعل verb کو فعلن باندھنا بہتر ہے
 
اگلے اشعار میں اگر " ماؤں کی چیخیں " اور " پاؤں کی دھول " لائیں تو قافیہ میں بگاڑ آتا
چیخیں ماوں کی مجھے ہی لکھنا تھا، لکھتے ہوئے دھیان نہیں رہا
اسکے علاوہ، کربلا والے شعر میں مطلب یہ تھا کہ دوسرے مصرعے میں کسی طرح "تیرے" لے آئیں۔
 
چیخیں ماوں کی مجھے ہی لکھنا تھا، لکھتے ہوئے دھیان نہیں رہا
اسکے علاوہ، کربلا والے شعر میں مطلب یہ تھا کہ دوسرے مصرعے میں کسی طرح "تیرے" لے آئیں۔
بہت شکریہ برادر۔۔۔ سلامت رہیں۔۔۔
یہ مصرعہ دیکھئے۔۔۔
چاہئے ہے دھول تیرے دونوں پاؤں کی مجھے
 
آخری تدوین:
قوافی پر اعتراض کیا جا سکتا ہے ۔ چھاؤں پاؤں کی آوازیں جمع کے الفاظ دعاؤں، خطاؤں سے مختلف ہیں۔ پھر میری ترجیحات کے مطابق، ممکن ہے اسے میری سنک سمجھا جائے، پاؤں، چھاؤں بطور اسم محض بطور فعل باندھنا اور چھانا پانا مصدر سے بطور فعل verb کو فعلن باندھنا بہتر ہے
بہت شکریہ سر۔۔۔ معذرت آخری جملے کی تھوڑی وضاحت کر دیں کم علمی کی وجہ سے سمجھ نہیں پایا۔۔۔
 
بہت شکریہ سر۔۔۔ معذرت آخری جملے کی تھوڑی وضاحت کر دیں کم علمی کی وجہ سے سمجھ نہیں پایا۔۔۔
غالباً استاد محترم کی مراد یہ ہے کہ چھاؤں، پاؤں، گاؤں کا وزن فِعْل ہوگا ۔۔۔ گویا کچھ اسطرح کی آواز آئے گی ۔۔۔ پاںوْ ۔۔۔گاںوْ ۔۔۔ چھاںوْ ۔۔۔
جبکہ خطا، دعا وغیرہ کی جمع غیرندائی کی آوازیں یوں بنیں گی ۔۔۔ خطا اوں ۔۔۔ دعا اوں ۔۔۔ واللہ اعلم :)
 
غالباً استاد محترم کی مراد یہ ہے کہ چھاؤں، پاؤں، گاؤں کا وزن فِعْل ہوگا ۔۔۔ گویا کچھ اسطرح کی آواز آئے گی ۔۔۔ پاںوْ ۔۔۔گاںوْ ۔۔۔ چھاںوْ ۔۔۔
جبکہ خطا، دعا وغیرہ کی جمع غیرندائی کی آوازیں یوں بنیں گی ۔۔۔ خطا اوں ۔۔۔ دعا اوں ۔۔۔ واللہ اعلم :)
بہت شکریہ برادر۔۔۔
کچھ اشعار میں مجھے اب بھی لگ رہا ہے کہ میں صحیح سے اپنا مدعا بیان نہیں کر پایا۔۔۔ آپ تھوڑی رہنمائی کر دیجئے۔۔۔

کربلا سے آنے والے جوتیاں اپنی اتار
چاہئے ہے دھول تیرے دونوں پاؤں کی مجھے

کیا اس شعر کا دوسرا مصرعہ درست ہے۔۔۔ کیا لفظ " دونوں " صرف بھرتی کا تو نہیں لگ رہا ؟؟؟

ان خلاوں میں جلانے کے لئے روشن چراغ
آ پڑی آخر ضرورت خود ہواؤں کی مجھے

اس شعر میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہوائیں چراغ بجھا دیتی ہیں مجھے اب چراغ جلانے کے لئے بھی انہی ہواؤں کی ضرورت پڑ رہی ہے۔۔۔ کیا یہ شعر اس بات کی مکمل وضاحت کرتا ہے یا متبادل لایا جائے۔ ایک متبادل لکھنے کی کوشش کی ہے مگر اتنا رواں نہیں ۔ دیکھئے
دیپ یاں پھر سے جلانے کو ، ضرورت پڑ گئی
جو بجھاتی تھیں دیے ان ہی ہواؤں کی مجھے

دھوپ مجھکو چاہئے عمران بڑھنے کے لئے
آرزو ہرگز نہیں پیڑوں کی چھاؤں کی مجھے

اس شعر کا متبادل سوچا ہے دیکھیں کون سا درست ہے؟؟؟
دھوپ مجھکو چاہئے عمران بننے کو شجر
آرزو ہرگز نہیں پیڑوں کی چھاؤں کی مجھے

سر الف عین آپ بھی رہنمائی کر دیں پلیز۔۔۔
 
کربلا سے آنے والے جوتیاں اپنی اتار
چاہئے ہے دھول تیرے دونوں پاؤں کی مجھے
دوسرے مصرعے کو یوں سوچ کر دیکھیں
چاہئے خاکِ مبارک تیرے پاؤں کی مجھے

ان خلاوں میں جلانے کے لئے روشن چراغ
آ پڑی آخر ضرورت خود ہواؤں کی مجھے

اس شعر میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہوائیں چراغ بجھا دیتی ہیں مجھے اب چراغ جلانے کے لئے بھی انہی ہواؤں کی ضرورت پڑ رہی ہے۔۔۔ کیا یہ شعر اس بات کی مکمل وضاحت کرتا ہے یا متبادل لایا جائے۔ ایک متبادل لکھنے کی کوشش کی ہے مگر اتنا رواں نہیں ۔ دیکھئے
دیپ یاں پھر سے جلانے کو ، ضرورت پڑ گئی
جو بجھاتی تھیں دیے ان ہی ہواؤں کی مجھے
ویسے یہ شعر اپنی اصل حالت میں بھی، بطور سائنس کے طالب علم، مجھے کافی سائنسی لگا کہ شعلہ بھڑکانے کے لئے ہوا (آکسیجن) کا ہونا لازمی ہے :)
دوسری صورت جو آپ نے لکھی ہے، اس میں واں بھرتی کا لگ رہا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے مصرعے میں اگر ’’ان‘‘ اور ’’ہی‘‘ متصل لائیں گے تو غیر فصیح ہوگا کیونکہ یہ ’’انہی‘‘ کا محل ہے۔
میرے خیال میں پہلی ہی صورت بہتر ہے (اگرچہ مفہوم کے ابلاغ پر اس میں بھی سمجھوتہ کرنا پڑتے گا)۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ شعر کو نکال دیں، کئی لوگ مفہوم تک پہنچ بھی سکتے ہیں۔
کچھ عرصہ بعد دوبارہ دیکھئے گا، ممکن ہے کوئی بہترصورت سجھائی دے جائے۔

دھوپ مجھکو چاہئے عمران بڑھنے کے لئے
آرزو ہرگز نہیں پیڑوں کی چھاؤں کی مجھے

اس شعر کا متبادل سوچا ہے دیکھیں کون سا درست ہے؟؟؟
دھوپ مجھکو چاہئے عمران بننے کو شجر
آرزو ہرگز نہیں پیڑوں کی چھاؤں کی مجھے
پہلی صورت ہی بہتر لگ رہی ہے۔

دعاگو،
راحلؔ
 
دوسرے مصرعے کو یوں سوچ کر دیکھیں
چاہئے خاکِ مبارک تیرے پاؤں کی مجھے


ویسے یہ شعر اپنی اصل حالت میں بھی، بطور سائنس کے طالب علم، مجھے کافی سائنسی لگا کہ شعلہ بھڑکانے کے لئے ہوا (آکسیجن) کا ہونا لازمی ہے :)
دوسری صورت جو آپ نے لکھی ہے، اس میں واں بھرتی کا لگ رہا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے مصرعے میں اگر ’’ان‘‘ اور ’’ہی‘‘ متصل لائیں گے تو غیر فصیح ہوگا کیونکہ یہ ’’انہی‘‘ کا محل ہے۔
میرے خیال میں پہلی ہی صورت بہتر ہے (اگرچہ مفہوم کے ابلاغ پر اس میں بھی سمجھوتہ کرنا پڑتے گا)۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ شعر کو نکال دیں، کئی لوگ مفہوم تک پہنچ بھی سکتے ہیں۔
کچھ عرصہ بعد دوبارہ دیکھئے گا، ممکن ہے کوئی بہترصورت سجھائی دے جائے۔


پہلی صورت ہی بہتر لگ رہی ہے۔

دعاگو،
راحلؔ
بہت شکریہ برادرم۔۔۔
 
عمران سرگانی مکمل ترمیم شدہ غزل لکھ دیں تو میں دیکھتا ہوں کہ کچھ اور اصلاح کی گنجائش ہے یا نہیں

"آ رہی ہیں آج یادیں اپنے گاؤں کی مجھے "
"کیوں ؟ " "ضرورت ہے بزرگوں کی دعاؤں کی مجھے "

میں اٹھا کر ایک پودا دشت میں پھرتا رہا
تھی ضرورت دھوپ کی اسکو تو چھاؤں کی مجھے

خواب میں تھا وادئِ کشمیر میں موجود میں
اور سنائی دے رہی تھیں چیخیں ماؤں کی مجھے

کربلا سے آنے والے جوتیاں اپنی اتار
چاہئے خاکِ مبارک تیرے پاؤں کی مجھے

ان خلاؤں میں جلانے کے لئے روشن چراغ
آ پڑی آخر ضرورت خود ہواؤں کی مجھے

غیر کی باتوں میں آ کر دے رہا ہے وہ سزا
جو کبھی کی ہی نہیں، ایسی خطاؤں کی مجھے

دھوپ مجھکو چاہئے عمران بڑھنے کے لئے
آرزو ہرگز نہیں پیڑوں کی چھاؤں کی مجھے
 
Top