غزل برائے اصلاح: ابھی ہیں راہِ طلب میں تیری ۔۔۔

معزز اساتذۂ کرام اور اراکین محفل، آداب!
ایک غزل بغرضِ اصلاح پیشِ خدمت ہے۔ بحرجمیل (مفاعلاتن۴x) میں اس عاجز کی یہ پہلی کاوش ہے، اس لئے عین مناسب ہوگا کہ محترم و معزز اساتذۂ کرام اور قابلِ احترام محفلین کی تنقیدی نظر سے ایک بار ضرور گزرے۔
استادِ محترم جناب الف عین صاحب
مکرمی و محترمی جناب ظہیراحمدظہیر صاحب
مکرمی و محترمی جناب سید عاطف علی صاحب
و جملہ دیگر احباب۔

طالبِ توجہ،
راحلؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیں اب بھی راہِ طلب میں تیری، شکست تسلیم کی نہیں ہے
گو آنچ دھیمی ہے، آتشِ عشق لیکن اب تک بجھی نہیں ہے
(مطلع کے پہلے مصرعے میں ’’اب بھی‘‘ اور ’’شکست تسلیم‘‘ کے مابین تنافر کھٹک رہا ہے۔ ایک متبادل ذہن میں ہے
ابھی ہیں راہِ طلب میں تیری، شکست ہم کو ہوئی نہیں ہے۔
مزید یہ کہ ’’تیری‘‘ کو اگر ’’اس کی‘‘ سے بدل دیا جائے تو کیسا رہے گا؟)


نجانے کیوں لوگ کہہ رہے ہیں، کہ اس کی آنکھیں ہیں گویا جھیلیں
کوئی بتائے یہ کیسی جھیلیں ہیں، جن میں کوئی نمی نہیں ہے!
(یہاں دوسرے مصرعے میں کوئی کا دو بار آنا درست ہوگا؟)

لحاظِ خاطر، خیالِ خدمت! یہ حد سے زیادہ بڑھی مروت
دبے سے لہجے میں کہہ رہے ہیں کہ اب محبت رہی نہیں ہے!
(یہاں زیادہ کا زادہ تقطیع ہونا درست ہوگا؟
ایک متبادل یہ ہے
لحاظِ خاطر، خیالِ خدمت، تمہاری حد سے بڑھی مروت)


جو روکھی سوکھی بچی تھی، ہم نے گداؤں کو وہ بھی دان کردی
اب اور کرتے بھی کیا کہ دل سے وہ خوئے شاہی گئی نہیں ہے

نثار ایسے چمن پہ ہیں ہم، جہاں ہمارے لہو کے بدلے
ہمارے کھاتے میں خار ہیں بس، کوئی معطر کلی نہیں ہے

یہ مال و زر تم جو لوٹ بھی لو، ہماری ہستی غنی رہے گی
کہ اصل دولت تو آگہی ہے، اور اس کی ہم کو کمی نہیں ہے!

تمہاری طاقت کی دسترس میں بدن ہی تھا بس، شعور کب تھا؟
گلا دبا کر بھی، دیکھ لو تم، صدا ہماری دبی نہیں ہے

یہ نالۂ گل اور آہِ بلبل کے قصے کب تک سنیں گے راحلؔ؟
اب اور صفحے سیاہ مت کر، تری کہانی نئی نہیں ہے!

جزاکم اللہ خیراً
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کوئی بتائے یہ کیسی جھیلیں ہیں، جن میں کوئی نمی نہیں ہے!
کوئی کا تو خیر زیادہ مسئلہ نہیں کیوں کہ بحر طویل ھے اور الفاظ قریب نہیں ۔البتہ جھیل کی نمی کا تذکرہ قابل توجہ ہے ۔کہ اس کی اصل تشبیہ عموما گہرائی کے ساتھ مذکور ہوتی ہے ۔ لیکن یہ معنوی بات ہے لفظی نہیں ۔
لحاظِ خاطر، خیالِ خدمت! یہ حد سے زیادہ بڑھی مروت
دبے سے لہجے میں کہہ رہے ہیں کہ اب محبت رہی نہیں ہے!
لفظ زیادہ اصل میں عربی لفظ ہے اس میں ی کا دب جانا عجیب گراں سا لگتا ہے ۔ ہندی الفاظ میں درست محسوس ہوتا ہے جیسے دھیان پیار پیاس وغیرہ۔۔۔
دبے سے لہجے کی جگہ مناسب ہو گا اگر دبے لفظوں کا استعمال کیا جائے ۔کیوں کہ یہ بر محل محاوورے سے موافق ہو گا۔
نثار ایسے چمن پہ ہیں ہم، جہاں ہمارے لہو کے بدلے
ہمارے کھاتے میں خار ہیں بس، کوئی معطر کلی نہیں ہے
کھاتے کی جگہ حصہ شاید زیادہ اچھا رہے گا۔۔۔ہمارے کی تکرار بھی نہ ہو تو بہتر ہوگا۔کلی میں معطر کے بجائے کوئی اور صفت ہو تو اچھا ہے۔
گلا دبا کر بھی، دیکھ لو تم، صدا ہماری دبی نہیں ہے
اس مصرع کا اسلوب کچھ الجھ گیا ۔ گلا دبا کر بھی تم نے دیکھا ۔ اس طرح ہو سکتا ہے ۔
یہ نالۂ گل اور آہِ بلبل کے قصے کب تک سنیں گے راحلؔ؟
اب اور صفحے سیاہ مت کر، تری کہانی نئی نہیں ہے!
مقطع اچھا لگا۔ واہ۔
 

الف عین

لائبریرین
ابھی ہیں راہِ طلب میں تیری، شکست ہم کو ہوئی نہیں ہے۔
مزید یہ کہ ’’تیری‘‘ کو اگر ’’اس کی‘‘ سے بدل دیا جائے تو کیسا رہے گا؟)
پہلا مصرع یہ بہتر ہے اور 'اس کی' بہ نسبت 'تیری' قابل ترجیح

جھیلوں کے بارے میں بھائی سید عاطف علی سے متفق ہوں
نثار ایسے چمن پہ ہیں ہم، جہاں ہمارے لہو کے بدلے
ہمارے کھاتے میں خار ہیں بس، کوئی معطر کلی نہیں ہے
ہیں ہم' میں بھی کچھ تنافر کی کیفیت ہے،' ہم ہیں' کر دیں، معطر کی جگہ شگفتہ کلی بہتر ہو گا

حاظِ خاطر، خیالِ خدمت، تمہاری حد سے بڑھی مروت
متبادل مصرع بہتر ہے کہ فاعل واضح ہو جاتا ہے
 
معزز اساتذۂ کرام کے مشوروں کے بعد ترمیم شدہ مسودہ پیشِ خدمت ہے۔
دوسرا شعر، جھیلوں والا، فی الوقت شامل نہیں کررہا کیونکہ کوئی متبادل ذہن میں نہیں آرہا۔ یہ بات تو معروف ہے کہ سمندر یا جھیل گہرائی کے استعارے یا علامت کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں، میرے مافی الضمیر یہ تھا، گہرائی کے ساتھ، جھیل کا حسن اس میں موجود پانی کی مرہونِ منت ہوتا ہے۔ سوکھی ہوئی جھیل میں گہرائی تو ہوسکتی ہے، حسن نہیں۔ بہرحال، اس کو مستقبل کے لئے اٹھا رکھتے ہیں، اگر کوئی حل سوجھا تو۔۔

ہیں اب بھی راہِ طلب میں تیری، شکست تسلیم کی نہیں ہے
گو آنچ دھیمی ہے، آتشِ عشق لیکن اب تک بجھی نہیں ہے!

لحاظِ خاطر، خیالِ خدمت! تمہاری حد سے بڑھی مروت
دبے سے لفظوں میں کہہ رہے ہیں کہ اب محبت رہی نہیں ہے!

جو روکھی سوکھی بچی تھی، ہم نے گداؤں کو وہ بھی دان کردی
اب اور کرتے بھی کیا کہ دل سے وہ خوئے شاہی گئی نہیں ہے

نثار ایسے چمن پہ ہم ہیں، جہاں پہ خونِ جگر کے بدلے
ہمارے حصے میں خار ہیں بس، کوئی شگفتہ کلی نہیں ہے!

یہ مال و زر تم جو لوٹ بھی لو، ہماری ہستی غنی رہے گی
کہ اصل دولت تو آگہی ہے، اور اس کی ہم کو کمی نہیں ہے!

تمہاری طاقت کی دسترس میں بدن ہی تھا بس، شعور کب تھا؟
گلا دبا کر بھی تم نے دیکھا، صدا ہماری دبی نہیں ہے

یہ نالۂ گل اور آہِ بلبل کے قصے کب تک سنیں گے راحلؔ؟
اب اور صفحے سیاہ مت کر، تری کہانی نئی نہیں ہے!

الف عین
سید عاطف علی
 

الف عین

لائبریرین
ابھی دو باتوں کی طرف مزید دھیان گیا ہے
دبے سے لفظوں؟ محاورہ دبے دبے سے لفظوں ہوتا ہے
اور
سنیں گے راحل... داحل سنیں گے، یا اے راحل، لوگ سنیں گے؟
دوسرے مصرعے میں تو سے خطاب ہے، اس لیے واضح کیا جائے اسے
 
ابھی دو باتوں کی طرف مزید دھیان گیا ہے
دبے سے لفظوں؟ محاورہ دبے دبے سے لفظوں ہوتا ہے
اور
سنیں گے راحل... داحل سنیں گے، یا اے راحل، لوگ سنیں گے؟
دوسرے مصرعے میں تو سے خطاب ہے، اس لیے واضح کیا جائے اسے
مکرمی و استاذی، آداب!
کئی دن کی کوشش کے باوجود بھی درستی نہیں کر پایا ہوں، خصوصاً مقطعے میں تخلص کے ساتھ بحر کی بندش ہاتھ باندھے ہوئے ہیں۔
آپ کچھ تجویز فرما سکیں تو عنایت ہوگی۔
مزید عرض یہ ہے کہ ’’دبے سے لفظوں‘‘ کی بجائے پہلے ’’دبے سے لہجے‘‘ جس پر عاطف بھائی نے اعتراض کیا تھا۔ ایک دو روز قبل انتظار حسین کا ایک افسانہ پڑھ رہا تھا، جس میں ’’دبا سا لہجہ‘‘ نظر سے گزرا۔
سو اس بارے میں بھی رہنمائی فرمائیں کہ یہ ترکیب کس قدر روا ہے۔ جزاک اللہ۔

دعاگو،
راحلؔ
 

الف عین

لائبریرین
مقطع میں تو مشکل نہیں ہونی چاہیے
یہ بلبل و گل کے قصے راحل، کہاں تلک لوگ سن سکیں گے
یا
یہ بلبل و گل کے لوگ قصے کہاں تلک سن سکیں گے راحل
کیا جا سکتا ہے، دوسرے متبادل میں قصے کی ے بھی مکمل تقطیع ہو جاتی ہے
دبے سے لفظوں.. بھی قبول کیا جا سکتا ہے اگر دبے دبے باندھا نہ جا سکے تو۔
 
مقطع میں تو مشکل نہیں ہونی چاہیے
یہ بلبل و گل کے قصے راحل، کہاں تلک لوگ سن سکیں گے
یا
یہ بلبل و گل کے لوگ قصے کہاں تلک سن سکیں گے راحل
کیا جا سکتا ہے، دوسرے متبادل میں قصے کی ے بھی مکمل تقطیع ہو جاتی ہے
دبے سے لفظوں.. بھی قبول کیا جا سکتا ہے اگر دبے دبے باندھا نہ جا سکے تو۔
جزاک اللہ استادِ محترم
 
بہت شکریہ عاطف صاحب، آپ کی توجہ اور پذیرائی کے لئے شکرگزار ہوں۔ جزاک اللہ

دعاگو،
راحلؔ۔
اسّلام علیکم
راحل بھائی ایک حماقت کرنے چلا ہوں۔
لحاظِ خاطر، خیالِ خدمت،''بحدِّ امکاں'' بڑھی مروّت
شکستہ لہجےمیں کہ رہےہیں کہ اب محبّت رہی نہیں ہے​
اگر آپ پسند فرمائیں۔
معذرت خواں
بدر القادری​
 
اسّلام علیکم
راحل بھائی ایک حماقت کرنے چلا ہوں۔
لحاظِ خاطر، خیالِ خدمت،''بحدِّ امکاں'' بڑھی مروّت
شکستہ لہجےمیں کہ رہےہیں کہ اب محبّت رہی نہیں ہے​
اگر آپ پسند فرمائیں۔
معذرت خواں
بدر القادری​
اس میں معذرت خواہی کی کیا بات ہے بھائی ۔۔۔ ہم سب ہی تعلیم و تعلم میں مشغول ہیں ۔۔۔ آپ بے دھڑک اپنی رائے کا اظہار کیجئے، میں قارئین کی آراء اور تجاویز کو بمثل صدف قیمتی سمجھتا ہوں۔
ویسے (ازراہِ تفنن عرض ہے کہ) ’’بحدِ امکاں‘‘ میری استطاعت سے باہر کی ترکیب ہے، سو صاف پکڑے جانے کا غالب امکان ہے :)
آپ کی توجہ اور عمدہ تجویز کے لئے شکرگزار ہوں۔

دعاگو،
راحلؔ
 
Top