محمد احسن سمیع راحلؔ
محفلین
معزز اساتذۂ کرام اور اراکین محفل، آداب!
ایک غزل بغرضِ اصلاح پیشِ خدمت ہے۔ بحرجمیل (مفاعلاتن۴x) میں اس عاجز کی یہ پہلی کاوش ہے، اس لئے عین مناسب ہوگا کہ محترم و معزز اساتذۂ کرام اور قابلِ احترام محفلین کی تنقیدی نظر سے ایک بار ضرور گزرے۔
استادِ محترم جناب الف عین صاحب
مکرمی و محترمی جناب ظہیراحمدظہیر صاحب
مکرمی و محترمی جناب سید عاطف علی صاحب
و جملہ دیگر احباب۔
طالبِ توجہ،
راحلؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیں اب بھی راہِ طلب میں تیری، شکست تسلیم کی نہیں ہے
گو آنچ دھیمی ہے، آتشِ عشق لیکن اب تک بجھی نہیں ہے
(مطلع کے پہلے مصرعے میں ’’اب بھی‘‘ اور ’’شکست تسلیم‘‘ کے مابین تنافر کھٹک رہا ہے۔ ایک متبادل ذہن میں ہے
ابھی ہیں راہِ طلب میں تیری، شکست ہم کو ہوئی نہیں ہے۔
مزید یہ کہ ’’تیری‘‘ کو اگر ’’اس کی‘‘ سے بدل دیا جائے تو کیسا رہے گا؟)
نجانے کیوں لوگ کہہ رہے ہیں، کہ اس کی آنکھیں ہیں گویا جھیلیں
کوئی بتائے یہ کیسی جھیلیں ہیں، جن میں کوئی نمی نہیں ہے!
(یہاں دوسرے مصرعے میں کوئی کا دو بار آنا درست ہوگا؟)
لحاظِ خاطر، خیالِ خدمت! یہ حد سے زیادہ بڑھی مروت
دبے سے لہجے میں کہہ رہے ہیں کہ اب محبت رہی نہیں ہے!
(یہاں زیادہ کا زادہ تقطیع ہونا درست ہوگا؟
ایک متبادل یہ ہے
لحاظِ خاطر، خیالِ خدمت، تمہاری حد سے بڑھی مروت)
جو روکھی سوکھی بچی تھی، ہم نے گداؤں کو وہ بھی دان کردی
اب اور کرتے بھی کیا کہ دل سے وہ خوئے شاہی گئی نہیں ہے
نثار ایسے چمن پہ ہیں ہم، جہاں ہمارے لہو کے بدلے
ہمارے کھاتے میں خار ہیں بس، کوئی معطر کلی نہیں ہے
یہ مال و زر تم جو لوٹ بھی لو، ہماری ہستی غنی رہے گی
کہ اصل دولت تو آگہی ہے، اور اس کی ہم کو کمی نہیں ہے!
تمہاری طاقت کی دسترس میں بدن ہی تھا بس، شعور کب تھا؟
گلا دبا کر بھی، دیکھ لو تم، صدا ہماری دبی نہیں ہے
یہ نالۂ گل اور آہِ بلبل کے قصے کب تک سنیں گے راحلؔ؟
اب اور صفحے سیاہ مت کر، تری کہانی نئی نہیں ہے!
جزاکم اللہ خیراً
ایک غزل بغرضِ اصلاح پیشِ خدمت ہے۔ بحرجمیل (مفاعلاتن۴x) میں اس عاجز کی یہ پہلی کاوش ہے، اس لئے عین مناسب ہوگا کہ محترم و معزز اساتذۂ کرام اور قابلِ احترام محفلین کی تنقیدی نظر سے ایک بار ضرور گزرے۔
استادِ محترم جناب الف عین صاحب
مکرمی و محترمی جناب ظہیراحمدظہیر صاحب
مکرمی و محترمی جناب سید عاطف علی صاحب
و جملہ دیگر احباب۔
طالبِ توجہ،
راحلؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیں اب بھی راہِ طلب میں تیری، شکست تسلیم کی نہیں ہے
گو آنچ دھیمی ہے، آتشِ عشق لیکن اب تک بجھی نہیں ہے
(مطلع کے پہلے مصرعے میں ’’اب بھی‘‘ اور ’’شکست تسلیم‘‘ کے مابین تنافر کھٹک رہا ہے۔ ایک متبادل ذہن میں ہے
ابھی ہیں راہِ طلب میں تیری، شکست ہم کو ہوئی نہیں ہے۔
مزید یہ کہ ’’تیری‘‘ کو اگر ’’اس کی‘‘ سے بدل دیا جائے تو کیسا رہے گا؟)
نجانے کیوں لوگ کہہ رہے ہیں، کہ اس کی آنکھیں ہیں گویا جھیلیں
کوئی بتائے یہ کیسی جھیلیں ہیں، جن میں کوئی نمی نہیں ہے!
(یہاں دوسرے مصرعے میں کوئی کا دو بار آنا درست ہوگا؟)
لحاظِ خاطر، خیالِ خدمت! یہ حد سے زیادہ بڑھی مروت
دبے سے لہجے میں کہہ رہے ہیں کہ اب محبت رہی نہیں ہے!
(یہاں زیادہ کا زادہ تقطیع ہونا درست ہوگا؟
ایک متبادل یہ ہے
لحاظِ خاطر، خیالِ خدمت، تمہاری حد سے بڑھی مروت)
جو روکھی سوکھی بچی تھی، ہم نے گداؤں کو وہ بھی دان کردی
اب اور کرتے بھی کیا کہ دل سے وہ خوئے شاہی گئی نہیں ہے
نثار ایسے چمن پہ ہیں ہم، جہاں ہمارے لہو کے بدلے
ہمارے کھاتے میں خار ہیں بس، کوئی معطر کلی نہیں ہے
یہ مال و زر تم جو لوٹ بھی لو، ہماری ہستی غنی رہے گی
کہ اصل دولت تو آگہی ہے، اور اس کی ہم کو کمی نہیں ہے!
تمہاری طاقت کی دسترس میں بدن ہی تھا بس، شعور کب تھا؟
گلا دبا کر بھی، دیکھ لو تم، صدا ہماری دبی نہیں ہے
یہ نالۂ گل اور آہِ بلبل کے قصے کب تک سنیں گے راحلؔ؟
اب اور صفحے سیاہ مت کر، تری کہانی نئی نہیں ہے!
جزاکم اللہ خیراً