اشرف علی
محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔
غزل
بدنام ہو رہا ہوں سرِ عام دیکھیے
ہوتا ہے (عاشقوں کا یہ /عشق کا یہی) انجام دیکھیے
قاصد کے ہاتھ چوم نہ لوں ، اس کے ہاتھ سے
بھیجا ہے نامہ اس نے مِرے نام دیکھیے
جس سے بچھڑ کے شام و سحر رو رہا ہوں مَیں
رہتا ہے اب وہ خوش سَحَر و شام دیکھیے
ساقی نے مجھ کو بزم میں دیکھا تو ہے مگر
آتا ہے میرے ہاتھ میں کب جام دیکھیے
کانوں میں روئی ٹھونس کے ، کر کے زبان بند
یا
یہ سوچ کر کہ اپنی اسی میں ہے بہتری
جو بھی دِکھائے گردشِ ایّام ، دیکھیے
ہوتا نہیں ہر ایک کے بس کا ہر ایک کام !
مشّاق جس میں آپ ہیں ، وہ کام دیکھیے
جب نامہ بر کے ساتھ صبا کا ہے انتظار
غالبؔ کی طرح آپ در و بام دیکھیے*
اچھے سخنوروں کی یہ فہرست ہے جناب !
شامل ہے اس میں اب مِرا بھی نام دیکھیے
مت دیکھیے سماج میں کیا چل رہا ہے آج
جو کہہ رہا ہے آپ سے اسلام ، دیکھیے
جب تک کہ ہو سکے نہ میسّر وصالِ یار
یا
جب تک نہ آئے گیسو و رخسارِ یار ہاتھ
تصویرِ زلف و عارضِ گلفام دیکھیے
ملنے ، متاعِ عیش و طرب یا متاعِ غم
آتی ہے کون آج سرِ شام دیکھیے
جس کو وفا کے بدلے ہمیشہ مِلی جفا
اشرف ! مَیں ہوں وہ عاشقِ ناکام دیکھیے
*یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں
~غالبؔ~
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔
غزل
بدنام ہو رہا ہوں سرِ عام دیکھیے
ہوتا ہے (عاشقوں کا یہ /عشق کا یہی) انجام دیکھیے
قاصد کے ہاتھ چوم نہ لوں ، اس کے ہاتھ سے
بھیجا ہے نامہ اس نے مِرے نام دیکھیے
جس سے بچھڑ کے شام و سحر رو رہا ہوں مَیں
رہتا ہے اب وہ خوش سَحَر و شام دیکھیے
ساقی نے مجھ کو بزم میں دیکھا تو ہے مگر
آتا ہے میرے ہاتھ میں کب جام دیکھیے
کانوں میں روئی ٹھونس کے ، کر کے زبان بند
یا
یہ سوچ کر کہ اپنی اسی میں ہے بہتری
جو بھی دِکھائے گردشِ ایّام ، دیکھیے
ہوتا نہیں ہر ایک کے بس کا ہر ایک کام !
مشّاق جس میں آپ ہیں ، وہ کام دیکھیے
جب نامہ بر کے ساتھ صبا کا ہے انتظار
غالبؔ کی طرح آپ در و بام دیکھیے*
اچھے سخنوروں کی یہ فہرست ہے جناب !
شامل ہے اس میں اب مِرا بھی نام دیکھیے
مت دیکھیے سماج میں کیا چل رہا ہے آج
جو کہہ رہا ہے آپ سے اسلام ، دیکھیے
جب تک کہ ہو سکے نہ میسّر وصالِ یار
یا
جب تک نہ آئے گیسو و رخسارِ یار ہاتھ
تصویرِ زلف و عارضِ گلفام دیکھیے
ملنے ، متاعِ عیش و طرب یا متاعِ غم
آتی ہے کون آج سرِ شام دیکھیے
جس کو وفا کے بدلے ہمیشہ مِلی جفا
اشرف ! مَیں ہوں وہ عاشقِ ناکام دیکھیے
*یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں
~غالبؔ~