akhtarwaseem
محفلین
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
ان کہی بات بھی اِظہار میں آ جاتی ہے
دل لگی چُھپ کے بھی اقرار میں آ جاتی ہے
داستاں اپنی بھی اک دن کہیں چھپ جائے گی
اب تو ہر بات ہی اخبار میں آ جاتی ہے
دُکھ کِسی شخص کا مجھ سے نہیں دیکھا جاتا
جان خود میری بھی آزار میں آ جاتی ہے
بات تہذیب کی پگڈنڈیوں سے گزرے تو
کس قدر چاشنی گفتار میں آ جاتی ہے
رُت بہاروں کی مجھے اب نہ کِھلا پائے گی
یہ مِرے پاس تو بے کار میں آ جاتی ہے
کوئی ہمدرد مِلے، حال جو پوچھے دل سے
زندگی اِک نئی بیمار میں آ جاتی ہے
لوٹ کر شام پرندے جو چلے آ تے ہیں
تازگی پھر نئی اشجار میں آ جاتی ہے
وقت اچھا ہو تو چلتا ہے ہواؤں جیسے
وقت کی نبض بھی رفتار میں آ جاتی ہے
ذکر جب تیرا مری غزلوں میں آ جائے تو
تیری تصویر بھی اشعار میں آ جاتی ہے