غزل برائے اصلاح : اپنی انا اٹھا لی مرے خواب پھینک کر

السلام علیکم سر الف عین عظیم شاہد شاہنواز محمّد احسن سمیع :راحل: اصلاح فرما دیجئے۔۔۔

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن

اپنی انا اٹھا لی مرے خواب پھینک کر
بھاگا وہ میرے چہرے پہ تیزاب پھینک کر

پہنچے گا کس طرح لہو چاہت کی روح تک
پھر کیا کرے گا تو دلِ بیتاب پھینک کر

تونے تو جو کِیا وہ کِیا اے عدوئے خاص
میرے تو زخم بھر گئے زہراب پھینک کر

میں نے کیا تقاضہ فقط ایک جام کا
مجھ پر چلا گیا ہے وہ مے ناب پھینک کر

اس وقت سے رقیب کو ڈرنا بھی چاہیے
اس پر جھپٹ پڑوں گا میں آداب پھینک کر

جتنا ہو دل شکستہ ، ہے اتنا ہی قیمتی
پھر کیا ملے گا گوہرِ نایاب پھینک کر

بھائی بلا رہے ہیں جو ، کنویں میں ایک دن
آ جائیں گے مجھے یہی احباب پھینک کر

نشہ اترتا ہی نہیں آنکھوں کے جام کا
ساقی جگاتا ہے مجھے مے ناب پھینک کر

بچے کی طرح دل مرا اس سے لپٹ گیا
پر وہ پلٹ گیا دلِ بیتاب پھینک کر

لینے کو عکس چاند کا عمران جھیل سے
اترا ہوں اپنے ہاتھ سے مہتاب پھینک کر

شکریہ
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
پہنچے گا کس طرح لہو چاہت کی روح تک
'کس طرالہُ' تقطیع ہوتا ہے جو درست نہیں۔ ح حرف علت کی مانند گرائی نہیں جا سکتی۔ کیسے یا خون الفاظ استعمال کر کے ترتیب بدل دو۔
باقی سرسری طور پر تو درست لگ رہی ہے
 
پہنچے گا کس طرح لہو چاہت کی روح تک
'کس طرالہُ' تقطیع ہوتا ہے جو درست نہیں۔ ح حرف علت کی مانند گرائی نہیں جا سکتی۔ کیسے یا خون الفاظ استعمال کر کے ترتیب بدل دو۔
باقی سرسری طور پر تو درست لگ رہی ہے
اوکے سر شکریہ۔۔۔

پہنچے گا خون کیسے محبت کی روح تک
پھر کیا کرے گا تو دلِ بیتاب پھینک کر

یوں کر دیا ۔۔۔

یہ سر دیکھئے

ساقی سے کیا کیا ہے تقاضا شراب کا
مجھ پر چلا گیا ہے وہ مے ناب پھینک کر
 
آخری تدوین:
برادرم عمرانؔ صاحب، آداب،

ماشاءاللہ اچھی ٖغزل ہے۔ آپ کے کلام میں تیزی سے پختگی آرہی ہے، اللہ پاک آپ کے علمی سفر میں مزید برکت عطا فرمائے۔

اپنی انا اٹھا لی مرے خواب پھینک کر
بھاگا وہ میرے چہرے پہ تیزاب پھینک کر
پہلا مصرعہ کافی جاندار ہے، دوسرا اس کے معیار سے میل نہیں کھارہا جس کی وجہ سے شعر کا حسن نکھر کر سامنے نہیں آرہا۔ ’’بھاگا وہ‘‘ کی کرختگی غزل کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں۔
دوسرے مصرعے کو یوں سوچ کر دیکھیں
ظالم نے میرے چہرے پہ تیزاب پھینک کر
ویسے ایک تاثر یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے تناظر میں یہ شعر اگر کسی لڑکی کے حالات کی ترجمانی کرے تو زیادہ مناسب رہے گا، گویا اس کو ’’تھرڈ پرسن‘‘ کے صیغے میں کہہ کر دیکھیں، ممکن ہے بیان اور جاندار ہوجائے۔

میں نے کیا تقاضہ فقط ایک جام کا
مجھ پر چلا گیا ہے وہ مے ناب پھینک کر
میرے خیال میں ’’تقاضہ‘‘ کا درست املا الف کے ساتھ ’’تقاضا‘‘ ہوتا ہے۔
دوسرے یہ کہ پہلے مصرعے میں ’’تھا‘‘ کی کمی محسوس ہورہی ہے۔

اس وقت سے رقیب کو ڈرنا بھی چاہیے
اس پر جھپٹ پڑوں گا میں آداب پھینک کر
پہلے مصرعے میں اگر ’’اُس‘‘ کے ساتھ وقت کی تخصیص کردی ہے تو ’’جب‘‘ کے ساتھ اس کی وضاحت بھی ہونی چاہیئے۔ ایک صورت یوں بھی ہو سکتی ہے۔
ڈر اے رقیبِ رو سیہ (یا تند خو)، اس وقت سے کہ جب
تجھ پر جھپٹ پڑوں گا میں آداب پھینک کر

جتنا ہو دل شکستہ ، ہے اتنا ہی قیمتی
پھر کیا ملے گا گوہرِ نایاب پھینک کر
دوسرے مصرعے میں ’’پھر کیا‘‘ بھرتی کا معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اصل میں تو یہ ’’تم کو کیا ملے گا‘‘ کا محل ہے، جو ظاہر ہے بحر کی بندش کی وجہ سے ممکن نہیں۔ یوں سوچ کر دیکھیں
خاسر رہو گے گوہرِ نایاب پھینک کر۔
اگرچہ اس اصل اور مجوزہ دونوں صورتوں میں مجھے حرفِ ربط یا حرفِ اشارہ کی کمی محسوس ہورہی ہے، یعنی دوسرے مصرعے میں کسی طرح ’’یہ‘‘ آسکے تو بیان اور صاف ہوجائے گا۔

بھائی بلا رہے ہیں جو ، کنویں میں ایک دن
آ جائیں گے مجھے یہی احباب پھینک کر
یہاں مجھے ’’کنویں‘‘ کے تلفظ میں تردد ہے۔ میرے خیال میں کنویں کا وزن فعو ہونا چاہیئے، جبکہ یہاں فعلن باندھا گیا ہے۔ ممکن ہے میرا تاثر غلط ہو۔ دوسرے یہاں تعقید لفظی بھی نمایاں ہے۔
بہتر ہے آپ خود اس پر نظر ثانی کرکے دیکھیں۔

نشہ اترتا ہی نہیں آنکھوں کے جام کا
ساقی جگاتا ہے مجھے مے ناب پھینک کر
جام تو برتن ہوتا ہے، اس کا نشہ کیسے ہوسکتا ہے؟ نظروں سے پلانا، نشیلی آنکھیں وغیرہ تو سنے ہیں مگر ایسے محاوروں میں بھی نشے کی نسبت عموما جام سے نہیں جوڑی جاتی۔

لینے کو عکس چاند کا عمران جھیل سے
اترا ہوں اپنے ہاتھ سے مہتاب پھینک کر
ذرا سا الفاظ و زمان کا تغیر کرکے دیکھیں۔مثلاً
عمرانؔ، ایک عکس چرانے کو جھیل میں
اترا میں اپنے ہاتھ سے مہتاب پھینک کر!

دعاگو،
راحلؔ
 
آخری تدوین:
برادرم عمرانؔ صاحب، آداب،

ماشاءاللہ اچھی ٖغزل ہے۔ آپ کے کلام میں تیزی سے پختگی آرہی ہے، اللہ پاک آپ کے علمی سفر میں مزید برکت عطا فرمائے۔


پہلا مصرعہ کافی جاندار ہے، دوسرا اس کے معیار سے میل نہیں کھارہا جس کی وجہ سے شعر کا حسن نکھر کر سامنے نہیں آرہا۔ ’’بھاگا وہ‘‘ کی کرختگی غزل کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں۔
دوسرے مصرعے کو یوں سوچ کر دیکھیں
ظالم نے میرے چہرے پہ تیزاب پھینک کر
ویسے ایک تاثر یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے تناظر میں یہ شعر اگر کسی لڑکی کے حالات کی ترجمانی کرے تو زیادہ مناسب رہے گا، گویا اس کو ’’تھرڈ پرسن‘‘ کے صیغے میں کہہ کر دیکھیں، ممکن ہے بیان اور جاندار ہوجائے۔


میرے خیال میں ’’تقاضہ‘‘ کا درست املا الف کے ساتھ ’’تقاضا‘‘ ہوتا ہے۔
دوسرے یہ کہ پہلے مصرعے میں ’’تھا‘‘ کی کمی محسوس ہورہی ہے۔


پہلے مصرعے میں اگر ’’اُس‘‘ کے ساتھ وقت کی تخصیص کردی ہے تو ’’جب‘‘ کے ساتھ اس کی وضاحت بھی ہونی چاہیئے۔ ایک صورت یوں بھی ہو سکتی ہے۔
ڈر اے رقیبِ رو سیہ (یا تند خو)، اس وقت سے کہ جب
تجھ پر جھپٹ پڑوں گا میں آداب پھینک کر


دوسرے مصرعے میں ’’پھر کیا‘‘ بھرتی کا معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اصل میں تو یہ ’’تم کو کیا ملے گا‘‘ کا محل ہے، جو ظاہر ہے بحر کی بندش کی وجہ سے ممکن نہیں۔ یوں سوچ کر دیکھیں
خاسر رہو گے گوہرِ نایاب پھینک کر۔
اگرچہ اس اصل اور مجوزہ دونوں صورتوں میں مجھے حرفِ ربط یا حرفِ اشارہ کی کمی محسوس ہورہی ہے، یعنی دوسرے مصرعے میں کسی طرح ’’یہ‘‘ آسکے تو بیان اور صاف ہوجائے گا۔


یہاں مجھے ’’کنویں‘‘ کے تلفظ میں تردد ہے۔ میرے خیال میں کنویں کا وزن فعو ہونا چاہیئے، جبکہ یہاں فعلن باندھا گیا ہے۔ ممکن ہے میرا تاثر غلط ہو۔ دوسرے یہاں تعقید لفظی بھی نمایاں ہے۔
بہتر ہے آپ خود اس پر نظر ثانی کرکے دیکھیں۔


جام تو برتن ہوتا ہے، اس کا نشہ کیسے ہوسکتا ہے؟ نظروں سے پلانا، نشیلی آنکھیں وغیرہ تو سنے ہیں مگر ایسے محاوروں میں بھی نشے کی نسبت عموما جام سے نہیں جوڑی جاتی۔


ذرا سا الفاظ و زمان کا تغیر کرکے دیکھیں۔مثلاً
عمرانؔ، ایک عکس چرانے کو جھیل میں
اترا میں اپنے ہاتھ سے مہتاب پھینک کر!

دعاگو،
راحلؔ
سراہنے کے لئے آپکا شکر گزار ہوں۔۔۔ اس میں مجھ اکیلے کا کوئی کمال نہیں ہے۔۔۔ آپ جیسے دوستوں اور اساتذہ کا شفقت ہے۔۔۔ اس میں ان لوگوں کا ہاتھ ہے جو ذاتی عناد میں مجھ پر طعنہ زنی کرتے رہے ہیں اور میں انکی ضد میں اور اچھے سے اچھے شعر کہنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔۔۔

آپ نے بہت اچھی اصلاح کی۔۔۔ ان میں سے کچھ چیزیں میرے ذہن میں تھیں۔۔۔ آپکے مشورے کے مطابق مزید بہتر کرتا ہوں۔۔۔
بہت شکریہ بھائی جان۔۔۔
 
سر الف عین محمّد احسن سمیع :راحل:

اپنی انا اٹھا لی مرے خواب پھینک کر
ظالم نے میرے چہرے پہ تیزاب پھینک کر

پہنچے گا کیسے خون محبت کی روح تک
پھر کیا کرے گا تو دلِ بیتاب پھینک کر

تونے تو جو کِیا وہ کِیا اے عدوئے خاص
میرے تو زخم بھر گئے زہراب پھینک کر

ساقی سے کیا کِیا تھا تقاضا شراب کا
مجھ پر چلا گیا ہے وہ مے ناب پھینک کر
یا
ساقی سے یہ کہا تھا مجھے ایک گھونٹ دے
مجھ پر چلا گیا ہے وہ مے ناب پھینک کر

ڈر اے رقیبِ رو سیہ ، اس وقت سے کہ جب
تجھ پر جھپٹ پڑوں گا میں آداب پھینک کر

جتنا ہو دل شکستہ ، ہے اتنا ہی قیمتی
خاسر رہو گے گوہرِ نایاب پھینک کر

بھائی بلا رہے ہیں جو ، تم دیکھنا ، مجھے
آ جائیں گے کنویں میں یہ احباب پھینک کر
یا
بھائی پکار کر مجھے لے جا رہے ہیں جو
آ جائیں گے کنویں میں یہ احباب پھینک کر

نشہ اترتا ہی نہیں اس ایک جام کا
ساقی جگاتا ہے مجھے مے ناب پھینک کر

بچے کی طرح دل مرا اس سے لپٹ گیا
پر وہ پلٹ گیا دلِ بیتاب پھینک کر

عمرانؔ، ایک عکس چرانے کو جھیل میں
اترا میں اپنے ہاتھ سے مہتاب پھینک کر!
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اب بہتر ہو گئی ہے غزل
کنویں کی غلط بندش سے میں چوک گیا حالانکہ پہلی نظر میں ہی دیکھا تھا اسے!
مجھ پر چلا گیا ہے وہ مے ناب پھینک کر
مجھ پر چلا گیا؟ بے معنی لگتا ہے، ترتیب بدلو
وہ چل دیا ہے مجھ پہ مئے ناب.....
 
اب بہتر ہو گئی ہے غزل
کنویں کی غلط بندش سے میں چوک گیا حالانکہ پہلی نظر میں ہی دیکھا تھا اسے!
مجھ پر چلا گیا ہے وہ مے ناب پھینک کر
مجھ پر چلا گیا؟ بے معنی لگتا ہے، ترتیب بدلو
وہ چل دیا ہے مجھ پہ مئے ناب.....
بہت شکریہ سر۔۔۔ سلامت رہیں
 
Top