غزل برائے اصلاح : اک دن یوں حسرتوں کا تماشہ دکھائی دے گا

انس معین

محفلین
سر غزل برائے اصلاح : الف عین
محمد خلیل الرحمٰن ظہیراحمدظہیر محمّد احسن سمیع :راحل:

اک دن یوں حسرتوں کا تماشہ دکھائی دے گا
وہ غیر ہو گا لیکن اپنا دکھائی دے گا
-------------------------------
زخموں سے چور ہو گا بے حال ہو گا لیکن
تجھ کو ترا دِوانہ ہنستا دکھائی دے گا
-------------------------------
اُس بے وفا سے میرا کبھی ذکر کر کے دیکھو
نظروں سے اپنی ہی وہ چھُپتا دکھائی دے گا
-------------------------------
دریا سی آنکھ کا رخ وہ اس طرف جو موڑے
اس کو ہمارے اندر صحرا دکھائی دے گا
-------------------------------
اس پل یقیں کریں گے فصلِ بہار کا ہم
پھولوں میں جب تمہارا مکھڑا دکھائی دے گا
-------------------------------
کس کو خبر تھی احمد کبھی اس طرح سے تو بھی
بے بس ، تھکا ہوا اور تنہا دکھائی دے گا
 
مدیر کی آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ ! خوب اشعار ہیں ۔
مطلع کا وزن پھر سے دیکھئے ۔ تماشہ یہاں نہیں آئے گا ۔
تیسرے شعر میں ٹائپو درست کیجئے
آنکھ کو سمندر سے تشبیہ تو دی جاتی ہے لیکن دریا سے نہیں ۔ آنکھ کو ڈی گریڈ مت کریں بھائی ورنہ کل کوئی نہرکہنا شروع کردے گا۔ :)
 
برادرم احمد، آداب۔
ماشاءاللہ خوب!
مکرمی ظہیر صاحب نے مطلع کے پہلے مصرعے کے وزن کی نشاندہی کی ہے، مجھے تیسرے شعر اور مقطعے کے پہلے مصرعوں میں بھی وزن کا بعینہ وہی مسئلہ محسوس ہورہا ہے۔ تماشا اور کبھی، دونوں ہی مفعول کے وزن میں کیسے آسکتے ہیں؟ تسلی کے لئے عروض کی ویب گاہ پر پرکھا تو حیران کن طور پر اس کا انجن مفعول فاعلاتن×2 کے وزن پر تقطیع کررہا تھا!!! جو کہ ظاہر ہے درست نہیں۔ ایک دو بار پہلے بھی وہاں کی تقطیع سے دھوکا ہوا ہے اس لئے میں آج کل manual تقطیع پر واپس آگیا ہوں:)

اس پل یقیں کریں گے فصلِ بہار کا ہم
پھولوں میں جب تمہارا مکھڑا دکھائی دے گا
مکھڑے کے بجائے چہرہ زیادہ بہتر نہیں رہے گا؟

دعاگو،
راحل۔
 

انس معین

محفلین
واہ ! خوب اشعار ہیں ۔
مطلع کا وزن پھر سے دیکھئے ۔ تماشہ یہاں نہیں آئے گا ۔
تیسرے شعر میں ٹائپو درست کیجئے
آنکھ کو سمندر سے تشبیہ تو دی جاتی ہے لیکن دریا سے نہیں ۔ آنکھ کو ڈی گریڈ مت کریں بھائی ورنہ کل کوئی نہرکہنا شروع کردے گا۔ :)
بہت شکریہ ظہیر بھائی ۔ اس کی جگہ سمندر ہی کر لیتا ہوں ۔ :)
 

انس معین

محفلین
برادرم احمد، آداب۔
ماشاءاللہ خوب!
مکرمی ظہیر صاحب نے مطلع کے پہلے مصرعے کے وزن کی نشاندہی کی ہے، مجھے تیسرے شعر اور مقطعے کے پہلے مصرعوں میں بھی وزن کا بعینہ وہی مسئلہ محسوس ہورہا ہے۔ تماشا اور کبھی، دونوں ہی مفعول کے وزن میں کیسے آسکتے ہیں؟ تسلی کے لئے عروض کی ویب گاہ پر پرکھا تو حیران کن طور پر اس کا انجن مفعول فاعلاتن×2 کے وزن پر تقطیع کررہا تھا!!! جو کہ ظاہر ہے درست نہیں۔ ایک دو بار پہلے بھی وہاں کی تقطیع سے دھوکا ہوا ہے اس لئے میں آج کل manual تقطیع پر واپس آگیا ہوں:)


مکھڑے کے بجائے چہرہ زیادہ بہتر نہیں رہے گا؟

دعاگو،
راحل۔
آداب راحلؔ بھائی ۔
وزن کا مسلہ درست کر کے دوبارہ حاضر ہوتا ہوں ۔ لگتا ہے تقطیع کے حوالے سے عروض کی ساءٹ پر مکمل اتفاق ٹھیک نہیں ہے ۔ یہ مسلہ میرے ساتھ کئی دفع ہوا ہے کہ وہاں درست دکھا رہا ہوتا ہے اور وزن میں غلطی ہوتی ہے ۔
 

akhtarwaseem

محفلین
دریا سی آنکھ کا رخ وہ اس طرف جو موڑے
اس کو ہمارے اندر صحرا دکھائی دے گا
-------------------------------
اس پل یقیں کریں گے فصلِ بہار کا ہم
پھولوں میں جب تمہارا مکھڑا دکھائی دے گا
-------------------------------
کس کو خبر تھی احمد کبھی اس طرح سے تو بھی
بے بس ، تھکا ہوا اور تنہا دکھائی دے گا

سارے اشعار ہی عمدہ ہیں، لیکن یہ اشعار زیادہ پسند آئے مجھے۔

رہی بات "دریا سی آنکھ" کی، تو آنکھوں کو جھیلوں سے بھی
تو مشابہت دی گئی ہے۔ سمندر کے لیئے جگہ بنانے کے لیئے
تگ ودو کرنی پڑے گی۔
 

الف عین

لائبریرین
تماشا تو واضح طور پر وزن میں نہیں آتا۔ البتہ 'کبھی' کی ی کے اسقاط کے ساتھ وزن درست ہو جاتا ہے اس لیے عروض سائٹ نے قبول کر لیا ہو، اگرچہ کبھی کی ی کا گرنا قابل قبول نہیں۔ تماشا کی جگہ مطلع میں 'میلہ' استعمال کیا جا سکتا ہے
کبھی ذکر... کو کچھ ذکر.... کرنے سے وزن کا مسئلہ حل ہو جائے گا
دریا سی آنکھ پر مجھے اعتراض نہیں اور نہ مکھڑا پر۔ چلنے دو
البتہ
بے بس ، تھکا ہوا اور تنہا دکھائی دے گا
اور کا اُر تقطیع ہونا درست نہیں، اس مصرعے کو بدل دو
 

انس معین

محفلین
سارے اشعار ہی عمدہ ہیں، لیکن یہ اشعار زیادہ پسند آئے مجھے۔

رہی بات "دریا سی آنکھ" کی، تو آنکھوں کو جھیلوں سے بھی
تو مشابہت دی گئی ہے۔ سمندر کے لیئے جگہ بنانے کے لیئے
تگ ودو کرنی پڑے گی۔
بہت شکریہ اختر بھائی ۔
دراصل میں وہ دریا دلی والا ماحول لانا چاہ رہا تھا ۔ مگر سمند اور چشمے کے ساتھ آنکھ کی مشابہت کی بات اپنی ہی ہے
 

انس معین

محفلین
تماشا تو واضح طور پر وزن میں نہیں آتا۔ البتہ 'کبھی' کی ی کے اسقاط کے ساتھ وزن درست ہو جاتا ہے اس لیے عروض سائٹ نے قبول کر لیا ہو، اگرچہ کبھی کی ی کا گرنا قابل قبول نہیں۔ تماشا کی جگہ مطلع میں 'میلہ' استعمال کیا جا سکتا ہے
کبھی ذکر... کو کچھ ذکر.... کرنے سے وزن کا مسئلہ حل ہو جائے گا
دریا سی آنکھ پر مجھے اعتراض نہیں اور نہ مکھڑا پر۔ چلنے دو
البتہ
بے بس ، تھکا ہوا اور تنہا دکھائی دے گا
اور کا اُر تقطیع ہونا درست نہیں، اس مصرعے کو بدل دو
بہت شکریہ استاد محترم ۔۔ بہتر کرتا ہوں۔
 
دراصل آنکھ کو سمندر یا جھیل وغیرہ سے تشبیہ دینے کا مقصد گہرائی کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے۔ دریا عموما روانی اور طغیانی کے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ غالبا اسی لئے ظہیر بھائی نے اس کی نشاندہی کی۔
 

انس معین

محفلین
دراصل آنکھ کو سمندر یا جھیل وغیرہ سے تشبیہ دینے کا مقصد گہرائی کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے۔ دریا عموما روانی اور طغیانی کے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ غالبا اسی لئے ظہیر بھائی نے اس کی نشاندہی کی۔
بلکل راحل بھائی ۔ درست فرمایا
 
تماشا تو واضح طور پر وزن میں نہیں آتا۔ البتہ 'کبھی' کی ی کے اسقاط کے ساتھ وزن درست ہو جاتا ہے اس لیے عروض سائٹ نے قبول کر لیا ہو، اگرچہ کبھی کی ی کا گرنا قابل قبول نہیں۔ تماشا کی جگہ مطلع میں 'میلہ' استعمال کیا جا سکتا ہے
کبھی ذکر... کو کچھ ذکر.... کرنے سے وزن کا مسئلہ حل ہو جائے گا
دریا سی آنکھ پر مجھے اعتراض نہیں اور نہ مکھڑا پر۔ چلنے دو
البتہ
بے بس ، تھکا ہوا اور تنہا دکھائی دے گا
اور کا اُر تقطیع ہونا درست نہیں، اس مصرعے کو بدل دو

مکرمی و استاذی اعجاز صاحب، السلام علیکم۔
سر اس کیس میں تو عروض کی سائٹ تماشہ پر بھی اعتراض نہیں کر رہی :)
 

الف عین

لائبریرین
مکرمی و استاذی اعجاز صاحب، السلام علیکم۔
سر اس کیس میں تو عروض کی سائٹ تماشہ پر بھی اعتراض نہیں کر رہی :)
اس مصرعے کو مفعول فاعلات مفاعیل فاعلاتن کے طور پر تقطیع کر رہا ہو گا، لیکن یہ غزل اس اضافی رکن کے ساتھ اس بحر میں نہیں ہے
 
Top