اشرف علی
محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
آداب !
براہِ مہربانی اس غزل کی اصلاح فرما دیں _
غزل
حُسن کی تاب آزما بیٹھے
چھاؤں سے دھوپ میں وہ جا بیٹھے
ہاں ! زمانے کا خوف تھا ان کو
پھر بھی ہم سے وہ دل لگا بیٹھے
نہیں ! یہ جھوٹ ہے سراسر جھوٹ
کہ ہمیں سچ میں وہ بھلا بیٹھے
بھاؤ ان کو زیادہ دے دے کر
بھاؤ ان کا ہمیں چڑھا بیٹھے
اک قسَم اس نے توڑ دی پھر آج
اک قسَم پھر ہم آج کھا بیٹھے
اپنی اپنی انا میں آ کر ہی
ایک دوجے کو ہم گنوا بیٹھے
میں نے بس آئنہ دکھایا تھا
اور وہ آستیں چڑھا بیٹھے
دم ہے کس میں جو سامنے میرے
ہاتھ ان کو ذرا لگا بیٹھے
آج اسے لڑنے کی تمنّا تھی
شکر ہے بات ہم بنا بیٹھے
ہم ، خودی کو سمجھنے کی خاطر
بے خودی کے سبق میں جا بیٹھے
کوئی سُکھ دُکھ میں پوچھتا ہی نہیں
جانے کن لوگوں میں ہم آ بیٹھے
شعر ایسا کوئی نہ ہو اشرف
جو غزل کو ہزل بنا بیٹھے
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
آداب !
براہِ مہربانی اس غزل کی اصلاح فرما دیں _
غزل
حُسن کی تاب آزما بیٹھے
چھاؤں سے دھوپ میں وہ جا بیٹھے
ہاں ! زمانے کا خوف تھا ان کو
پھر بھی ہم سے وہ دل لگا بیٹھے
نہیں ! یہ جھوٹ ہے سراسر جھوٹ
کہ ہمیں سچ میں وہ بھلا بیٹھے
بھاؤ ان کو زیادہ دے دے کر
بھاؤ ان کا ہمیں چڑھا بیٹھے
اک قسَم اس نے توڑ دی پھر آج
اک قسَم پھر ہم آج کھا بیٹھے
اپنی اپنی انا میں آ کر ہی
ایک دوجے کو ہم گنوا بیٹھے
میں نے بس آئنہ دکھایا تھا
اور وہ آستیں چڑھا بیٹھے
دم ہے کس میں جو سامنے میرے
ہاتھ ان کو ذرا لگا بیٹھے
آج اسے لڑنے کی تمنّا تھی
شکر ہے بات ہم بنا بیٹھے
ہم ، خودی کو سمجھنے کی خاطر
بے خودی کے سبق میں جا بیٹھے
کوئی سُکھ دُکھ میں پوچھتا ہی نہیں
جانے کن لوگوں میں ہم آ بیٹھے
شعر ایسا کوئی نہ ہو اشرف
جو غزل کو ہزل بنا بیٹھے