غزل برائے اصلاح: ایک لمحہ کئی صدیوں میں بڑھا ہو جیسے

وجاہت حسین

محفلین
سر الف عین اصلاح کی گزارش ہے۔

ایک لمحہ کئی صدیوں میں بڑھا ہو جیسے
آج پھر وقت تری سمت چلا ہو جیسے

پھول کھلتا ہے کئے دست کشادہ اپنا
اوجِ خوشبو کے لیے محو دعا ہو جیسے

نامہ بر مجھ کو ہی کہہ دیتا ہے پیغام مرے
میرا کوچہ ہی ترے در کا پتا ہو جیسے

زاہدِ گوشہ نشیں، رکھتا نہیں حسن کی تاب
اور دکھلاتا ہے ، مشغولِ خدا ہو جیسے

سرسراہٹ سی چمن میں ہوئی، خوشبو پھیلی
گلِ لالہ نے ترا نام لیا ہو جیسے

میری تنہائی بپا کرتی ہے ہنگامہِ حشر
میری تنہائی تری بزمِ لقا ہو جیسے

ایسے رکھا ہے ترا عشق دلِ حافظؔ میں
ایک سیمرغ ممولے میں رکھا ہو جیسے​
 

وجاہت حسین

محفلین
درست ہے غزل ماشاء اللہ ۔ مقطع کی تشبیہ سمجھ میں نہیں آئی

بہت شکریہ سر.
مقطع میں یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ عشق سیمرغ کی طرح کا ایک ماورائے عقل بڑا پرندہ ہے جو کہ ایک ممولے جیسے دل میں رکھا ہوا ہے. جو واردات عشق لے کر آ رہا ہے وہ میرے قلب کی وسعت سے زیادہ ہیں.

حضور میں نے سیمرغ کی مختلف تعریفات پڑھی سنی ہیں. بعض کہتے ہیں کہ اس کا ایک پر مشرق اور ایک مغرب میں ہوتا ہے. بعض کہتے ہیں یہ تیس شاہینوں کے برابر ہوتا ہے وغیرہ. تو بس اسی کی تشبیہ ذہن میں آئی.
 

الف عین

لائبریرین
سی مرغ بڑا ہوتا ہے یہ معلوم ہے لیکن 'ممولے میں رکھا' سمجھ میں نہیں آتا، چڑیا کے انڈے یا اس قسم کا کچھ ہوتا تو بہتر تھا
 

وجاہت حسین

محفلین
سی مرغ بڑا ہوتا ہے یہ معلوم ہے لیکن 'ممولے میں رکھا' سمجھ میں نہیں آتا، چڑیا کے انڈے یا اس قسم کا کچھ ہوتا تو بہتر تھا

تاخیر سے جواب دینے پر معذرت خواہ ہوں۔
سر، اگر اس شعر کو یوں کر دوں تو کیا اس کے معانی واضح ہوتے ہیں؟

یوں ترا عشق ہے پوشیدہ دلِ حافظ میں
ایک سیمرغ ممولے میں چھپا ہو جیسے
 
Top