غزل برائے اصلاح : بات کچھ ہے کہ وہ سینے سے لگاتا ہے مجھے

اشرف علی

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم سید عاطف علی صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح کی درخواست ہے _

غزل

بات کچھ ہے کہ وہ سینے سے لگاتا ہے مجھے
بے سبب کوئی کہاں دل میں بساتا ہے مجھے


مان لوں کیسے تِرے دل میں ہے کچھ میرے لیے
تیری آنکھوں میں کہاں کچھ نظر آتا ہے مجھے


اس کی مہمان نوازی پہ میں صدقے جاؤں
خود نہ کھا کر جو شکم سیر کراتا ہے مجھے
یا
ایسا لگتا ہے وہ پلکوں پہ بٹھاتا ہے مجھے
یا
وہ زمیں پر نہیں کرسی پہ بٹھاتا ہے مجھے


کیسے کہہ دوں کہ تعلق نہیں اس سے کوئی
کچھ تو ہے ، ورنہ بھلا کیوں وہ ستاتا ہے مجھے
یا
کچھ نہیں ہے تو بھلا کیوں وہ ستاتا ہے مجھے


میری نظروں میں وہ ناقد نہیں محسن ہے مِرا
جو مِرے منہ پہ مِرا عیب بتاتا ہے مجھے


وہ بلانے پہ تو آ جاتا ہے ملنے لیکن
چھونے دیتا ہے نہ خود ہاتھ لگاتا ہے مجھے


رب کی رحمت سے نہ مایوس کہیں ہو جاؤں
یار ! تو کتنا جہنم سے ڈراتا ہے مجھے


جو مجھے بھولے سے بھی فون نہیں کرتا کبھی
یا
بھول کر بھی مجھے جو فون نہیں کرتا کبھی
بھائی! / یار! تو کس لیے یاد اس کی دلاتا ہے مجھے


اس لیے بھی کہ وہ اوپر نہیں چڑھ سکتا کبھی
کھینچ کے پاؤں مِرا نیچے گراتا ہے مجھے


اب تِرے آنے نہ آنے سے نہیں پڑتا فرق
کیسے رکھتے ہیں خیال اپنا ، اب آتا ہے مجھے


میں تو سمجھا تھا بھلا دوں گا اسے دو دن میں
کیا ستم ہے کہ وہ یاد آج بھی آتا ہے مجھے
یا
وہ تو پہلے سے سوا یاد اب آتا ہے مجھے
یا
ایک مدت ہوئی یاد اب بھی وہ آتا ہے مجھے


تم جو چاہو تو نکمّا مجھے کہہ سکتے ہو
عشق کرنے کے سوا کچھ نہیں آتا ہے مجھے
یا
عشق اور شاعری کرنا ہی بس آتا ہے مجھے


یہ نزاکت ہے کہ نا سمجھی ہے یا چالاکی
کہ شبِ وصل بھی وہ آنکھ دکھاتا ہے مجھے


جب سے غالبؔ سے شناسائی ہوئی ہے اشرف
دوسرا کوئی سخن ور نہیں بھاتا ہے مجھے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کل بھی یہ غزل رہ گئی تھی۔
بات کچھ ہے کہ وہ سینے سے لگاتا ہے مجھے
بے سبب کوئی کہاں دل میں بساتا ہے مجھے
... درست

مان لوں کیسے تِرے دل میں ہے کچھ میرے لیے
تیری آنکھوں میں کہاں کچھ نظر آتا ہے مجھے
.. یہ بھی درست

اس کی مہمان نوازی پہ میں صدقے جاؤں
خود نہ کھا کر جو شکم سیر کراتا ہے مجھے
یا
ایسا لگتا ہے وہ پلکوں پہ بٹھاتا ہے مجھے
یا
وہ زمیں پر نہیں کرسی پہ بٹھاتا ہے مجھے
... تینوں متبادل اچھے لگ رہے ہیں، درمیانی شاید کچھ بہتر ہو، ویسے تمہاری مرضی

کیسے کہہ دوں کہ تعلق نہیں اس سے کوئی
کچھ تو ہے ، ورنہ بھلا کیوں وہ ستاتا ہے مجھے
یا
کچھ نہیں ہے تو بھلا کیوں وہ ستاتا ہے مجھے
... دوسرا متبادل بہتر ہے، شعر درست

میری نظروں میں وہ ناقد نہیں محسن ہے مِرا
جو مِرے منہ پہ مِرا عیب بتاتا ہے مجھے
... درست

وہ بلانے پہ تو آ جاتا ہے ملنے لیکن
چھونے دیتا ہے نہ خود ہاتھ لگاتا ہے مجھے
... درست

رب کی رحمت سے نہ مایوس کہیں ہو جاؤں
یار ! تو کتنا جہنم سے ڈراتا ہے مجھے
.. یہ بھی درست، پوری غزل ہی درست ہے، صرف متبادلات میں سے انتخاب ہی میرا کام تھا

جو مجھے بھولے سے بھی فون نہیں کرتا کبھی
یا
بھول کر بھی مجھے جو فون نہیں کرتا کبھی
بھائی! / یار! تو کس لیے یاد اس کی دلاتا ہے مجھے


اس لیے بھی کہ وہ اوپر نہیں چڑھ سکتا کبھی
کھینچ کے پاؤں مِرا نیچے گراتا ہے مجھے


اب تِرے آنے نہ آنے سے نہیں پڑتا فرق
کیسے رکھتے ہیں خیال اپنا ، اب آتا ہے مجھے


میں تو سمجھا تھا بھلا دوں گا اسے دو دن میں
کیا ستم ہے کہ وہ یاد آج بھی آتا ہے مجھے
یا
وہ تو پہلے سے سوا یاد اب آتا ہے مجھے
یا
ایک مدت ہوئی یاد اب بھی وہ آتا ہے مجھے


تم جو چاہو تو نکمّا مجھے کہہ سکتے ہو
عشق کرنے کے سوا کچھ نہیں آتا ہے مجھے
یا
عشق اور شاعری کرنا ہی بس آتا ہے مجھے


یہ نزاکت ہے کہ نا سمجھی ہے یا چالاکی
کہ شبِ وصل بھی وہ آنکھ دکھاتا ہے مجھے


جب سے غالبؔ سے شناسائی ہوئی ہے اشرف
دوسرا کوئی سخن ور نہیں بھاتا ہے مجھے
 

اشرف علی

محفلین
سر ! یہ توآپ سب کی اصلاح و رہنمائی کا نتیجہ ہے کہ اب پہلے کے مقابلے میں کم غلطی ہو رہی ہے
بہت بہت شکریہ
جزاک اللّٰہ خیراً

جو مجھے بھولے سے بھی فون نہیں کرتا کبھی
یا
بھول کر بھی مجھے جو فون نہیں کرتا کبھی
بھائی! / یار! تو کس لیے یاد اس کی دلاتا ہے مجھے

میں تو سمجھا تھا بھلا دوں گا اسے دو دن میں
کیا ستم ہے کہ وہ یاد آج بھی آتا ہے مجھے
یا
وہ تو پہلے سے سوا یاد اب آتا ہے مجھے
یا
ایک مدت ہوئی یاد اب بھی وہ آتا ہے مجھے
ان میں سے بھی انتخاب فرما دیں سر
 

الف عین

لائبریرین
بھول کر بھی مجھے جو فون نہیں کرتا کبھی
یار..... بہتر متبادل ہو گا

وہ تو پہلے سے سوا یاد اب آتا ہے مجھے
بہتر ہے

عشق کرنے کے سوا کچھ نہیں آتا ہے مجھے
بہتر
 

اشرف علی

محفلین
غزل ( اصلاح کے بعد )

بات کچھ ہے کہ وہ سینے سے لگاتا ہے مجھے
بے سبب کوئی کہاں دل میں بساتا ہے مجھے


مان لوں کیسے تِرے دل میں ہے کچھ میرے لیے
تیری آنکھوں میں کہاں کچھ نظر آتا ہے مجھے


اس کی مہمان نوازی پہ میں صدقے جاؤں
خود نہ کھا کر جو شکم سیر کراتا ہے مجھے


کیسے کہہ دوں کہ تعلق نہیں اس سے کوئی
کچھ نہیں ہے تو بھلا کیوں وہ ستاتا ہے مجھے


میری نظروں میں وہ ناقد نہیں محسن ہے مِرا
جو مِرا عیب مِرے منہ پہ بتاتا ہے مجھے


وہ بلانے پہ تو آ جاتا ہے ملنے لیکن
چھونے دیتا ہے نہ خود ہاتھ لگاتا ہے مجھے


رب کی رحمت سے نہ مایوس کہیں ہو جاؤں
یار ! تو کتنا جہنم سے ڈراتا ہے مجھے


اس لیے بھی کہ وہ اوپر نہیں چڑھ سکتا کبھی
کھینچ کے پاؤں مِرا نیچے گراتا ہے مجھے


اب تِرے آنے نہ آنے سے نہیں پڑتا فرق
کیسے رکھتے ہیں خیال اپنا ، اب آتا ہے مجھے


میں تو سمجھا تھا بھلا دوں گا اسے دو دن میں
وہ تو پہلے سے سوا یاد اب آتا ہے مجھے


تم جو چاہو تو نکمّا مجھے کہہ سکتے ہو
عشق کرنے کے سوا کچھ نہیں آتا ہے مجھے


یہ نزاکت ہے کہ نا سمجھی ہے یا چالاکی
کہ شبِ وصل بھی وہ آنکھ دکھاتا ہے مجھے


بھول کر بھی مجھے جو فون نہیں کرتا کبھی
یار ! تو کس لیے یاد اس کی دلاتا ہے مجھے


جب سے غالبؔ سے شناسائی ہوئی ہے اشرف
دوسرا کوئی سخن ور نہیں بھاتا ہے مجھے
 

اشرف علی

محفلین
غزل ( اصلاح کے بعد )

بات کچھ ہے کہ وہ سینے سے لگاتا ہے مجھے
بے سبب کوئی کہاں دل میں بساتا ہے مجھے


مان لوں کیسے تِرے دل میں ہے کچھ میرے لیے
تیری آنکھوں میں کہاں کچھ نظر آتا ہے مجھے


اس کی مہمان نوازی پہ میں صدقے جاؤں
خود نہ کھا کر جو شکم سیر کراتا ہے مجھے


کیسے کہہ دوں کہ تعلق نہیں اس سے کوئی
کچھ نہیں ہے تو بھلا کیوں وہ ستاتا ہے مجھے


میری نظروں میں وہ ناقد نہیں محسن ہے مِرا
جو مِرا عیب مِرے منہ پہ بتاتا ہے مجھے


وہ بلانے پہ تو آ جاتا ہے ملنے لیکن
چھونے دیتا ہے نہ خود ہاتھ لگاتا ہے مجھے


رب کی رحمت سے نہ مایوس کہیں ہو جاؤں
یار ! تو کتنا جہنم سے ڈراتا ہے مجھے


اس لیے بھی کہ وہ اوپر نہیں چڑھ سکتا کبھی
کھینچ کے پاؤں مِرا نیچے گراتا ہے مجھے


اب تِرے آنے نہ آنے سے نہیں پڑتا فرق
کیسے رکھتے ہیں خیال اپنا ، اب آتا ہے مجھے


میں تو سمجھا تھا بھلا دوں گا اسے دو دن میں
وہ تو پہلے سے سوا یاد اب آتا ہے مجھے


تم جو چاہو تو نکمّا مجھے کہہ سکتے ہو
عشق کرنے کے سوا کچھ نہیں آتا ہے مجھے


یہ نزاکت ہے کہ نا سمجھی ہے یا چالاکی
کہ شبِ وصل بھی وہ آنکھ دکھاتا ہے مجھے


بھول کر بھی مجھے جو فون نہیں کرتا کبھی
یار ! تو کس لیے یاد اس کی دلاتا ہے مجھے


جب سے غالبؔ سے شناسائی ہوئی ہے اشرف
دوسرا کوئی سخن ور نہیں بھاتا ہے مجھے
غزل اچھی ہے ،اس سند کے لیے شکر گزار ہوں الف عین سر
جزاک اللّٰہ خیراً

آج کل روز جو سینے سے لگاتا ہے مجھے
غالباً زہر کا ٹیکا یوں ٹکاتا ہے مجھے
آپ کہاں ہیں اور کیسے ہیں محمّد احسن سمیع :راحل: سر ؟
 
Top