غزل برائے اصلاح-بیڑیاں طاقت کے پاؤں میں نہیں

منذر رضا

محفلین
السلام علیکم!
اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے
الف عین
سید عاطف علی
یاسر شاہ

ڈھب نہیں آتا مجھے فریاد کا
گرچہ خوگر ہوں تری بیداد کا
ہے پروں پر ناز، لیکن غم یہ ہے
دکھ مقدر ہے مرے صیاد کا
اس سے بہتر ہستی کی تعریف کیا؟
امتحاں ہے بندہء آزاد کا
ہو گیا جل کر جگر کیونکر تمام؟
کیا کروں اپنے دلِ ناشاد کا
جسم کی بیماریوں کی ہے دوا
حل نہیں اس دردِ بے بنیاد کا
بیڑیاں طاقت کے پاؤں میں نہیں
کیا بھروسا برقِ خانہ زاد کا
شعر میرے ہیں فقط اس کے لیے
میں نہیں اوروں سے طالب داد کا
میں یگانہ ہوں، ولے افسوس ہے
کون شائق ہے مری روداد کا؟

شکریہ!
 

الف عین

لائبریرین
بس ان دو اشعار کو دیکھ لو
اس سے بہتر ہستی کی تعریف کیا؟
امتحاں ہے بندہء آزاد کا
ہستی کی ی کا اسقاط اچھا نہیں لگتا، زیست کہو

ہو گیا جل کر جگر کیونکر تمام؟
کیا کروں اپنے دلِ ناشاد کا
ابلاغ نہیں ہو سکا
 

یاسر شاہ

محفلین
اس سے بہتر ہستی کی تعریف کیا؟
امتحاں ہے بندہء آزاد کا
ہستی کی ی کا اسقاط اچھا نہیں لگتا، زیست کہو

مشفقی !آپ کا کہنا بجا کہ فارسی اور عربی الفاظ کے آخری حروف علّت نہیں گرنے چاہییں کہ یہی اکثر ادبا کا مسلک ہے لیکن اس کا کیا کریں کہ میر نے بھی <ہستی> کی <ی> گرا دی ہے :

ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے

مزے کی بات یہاں ضرورت شعری بھی درپیش نہیں کہ آرام سے <ہستی> کی جگہ ہندی لفظ <اپنی> باندھا جا سکتا تھا-یوں :

اپنی ہستی حباب کی سی ہے

وہ الگ بات کہ بڑا شاعر شعر میں الفاظ کے چناؤ اور الفاظ کی ترتیب کے معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے اس لیے :اپنی ہستی: نہیں برتا گیا -پھر یہ شعر بھی مقبول ہر خاص و عام ہے-آپ کیا فرمائیں گے -
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مشفقی !آپ کا کہنا بجا کہ فارسی اور عربی الفاظ کے آخری حروف علّت نہیں گرنے چاہییں کہ یہی اکثر ادبا کا مسلک ہے لیکن اس کا کیا کریں کہ میر نے بھی <ہستی> کی <ی> گرا دی ہے :

ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے

مزے کی بات یہاں ضرورت شعری بھی درپیش نہیں کہ آرام سے <ہستی> کی جگہ ہندی لفظ <اپنی> باندھا جا سکتا تھا-یوں :

اپنی ہستی حباب کی سی ہے

وہ الگ بات کہ بڑا شاعر شعر میں الفاظ کے چناؤ اور الفاظ کی ترتیب کے معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے اس لیے :اپنی ہستی: نہیں برتا گیا -پھر یہ شعر بھی مقبول ہر خاص و عام ہے-آپ کیا فرمائیں گے -

یاسر ، میر کے محولہ بالا شعر کی تقطیع میری رائے میں اور طرح سے ہے ۔ یہاں ہستی کی "ی" نہیں گرائی گئی بلکہ اپنی کے الف کا سقاط کیا گیا ہے ۔ یعنی اس کی تقطیع " ہس ۔ تِیَپ ۔ نی" ہوگی۔ الف وصل کا اسقاط اساتذہ کے ہاں عام ہےاور کثرت سے ہے ۔

میر کے وہ اشعار جن میں موصوف نے ہستی کی "ی" ساقط کی ہے ان کی کچھ مثالیں یہ ہیں :

آئے عدم سے ہستی میں تِس پر نہیں قرار
ہے ان مسافروں کا ارادہ کہاں کے تیں

کیا ہوا ہے ابھی تو ہستی ہی کو بھُولے ہو
آخرِ کار محبت کو ٹک اک یاد کرو

شبنم کی سی نمود سے تھا میں بھی عرق عرق
یعنی کہ ہستی ننگِ عدم تھی ، خجل گیا

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ فارسی عربی الفاظ کے آخر سے حرفِ علت گرایا جاسکتا ہے یا نہیں تو عمومی اصول تو یہی ہے کہ ایسا حتی المقدورنہیں کرنا چاہئے ۔ آخر سے الف گرانا تو ممکن بھی نہیں اور اگر کیا بھی جائے تو نہایت قبیح ہوتا ہے۔ اسی طرح آخر سے واؤ لین اور واؤ معروف کو بھی گرانا انتہائی مشکل ہے ۔ لے دے کے "ی" اور "ے" ہی بچ جاتے ہیں کہ جن کو نسبتًا آسانی سےگرایا جاسکتا ہے ۔ ایسی صورت میں بھی یہ بنیادی اصول مدِنظر رکھا جائے گا کہ اسقاط کی وجہ سے صوتی ثقالت یا قبح کی صورت نہ پیدا ہو ، روانی مجروح نہ ہوتی ہو ۔ میر کے مندرجہ بالا تین اشعار میں سے دوسرے شعر میں ایسی ہی صورت پیدا ہوگئی ہے اور اس بندش میں ہستی کی "ی" کا اسقاط بالکل بھی اچھا تاثر نہیں چھوڑرہا ۔ مصرع کی روانی متاثر ہوئی ہے ۔
یعنی آخری بات یہ ہے کہ کسی حرف کے قابلِ اسقاط ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اسے ساقط کرنے سے کوئی ناگوار صورت پیدا نہیں ہوگی اور اسے گرا ہی دینا چاہئے ۔ میرا گمان ہے کہ اعجاز بھائی کا اشارہ اسی طرف تھا کہ انہیں "ی" کا سقاط اچھا نہیں لگا ۔ عروضی طور پر جائز یا ناجائز کہنا مقصود نہ تھا ۔
 
Top