اشرف علی
محفلین
محترم الف عین صاحب ، محترم سید عاطف علی صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب ، محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔
غزل
کہیں دریا ، کہیں گلشن ، تو کہیں صحرا ہے
دیکھ اے آنکھ ! یہاں تیرے لیے کیا کیا ہے
اتنا پاگل ہے تِرے پیار میں اک شخص کہ اب
تجھ کو پانے کے لیے کچھ بھی وہ کر سکتا ہے
بَن نہ جائے یہ خبر سرخئ اخبار کہیں !
تیرے ہونٹوں سے گلابوں نے کلَر مانگا ہے
جو کہ سنتے ہی سمجھ میں نہیں آئے فوراً
لوگ کہتے ہیں وہی شعر بڑا ہوتا ہے
دنگ رہ جاؤ گے تم دیکھ کے خلوت میں اسے
وہ جو محفل میں نظر آتا ہے ، کب ویسا ہے ؟
کیا عجب ہے اگر آ جائے مِرا دل تجھ پر
دل تو ناداں ہے ، کسی شخص پہ آ سکتا ہے
کون سا دن ہے کہ جب یاد نہ آئی اس کی
کون سی رات خیال اس کا نہیں آیا ہے !
وقت سے پہلے نہ قسمت سے زیادہ اشرف !
کچھ مِلا ہے کسی کو اور نہ کبھی مِلتا ہے
مر کے مرتا ہے کہاں کوئی سخنور اشرف !
اپنے شعروں میں ہمیشہ وہ جیا کرتا ہے
محترم یاسر شاہ صاحب ، محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔
غزل
کہیں دریا ، کہیں گلشن ، تو کہیں صحرا ہے
دیکھ اے آنکھ ! یہاں تیرے لیے کیا کیا ہے
اتنا پاگل ہے تِرے پیار میں اک شخص کہ اب
تجھ کو پانے کے لیے کچھ بھی وہ کر سکتا ہے
بَن نہ جائے یہ خبر سرخئ اخبار کہیں !
تیرے ہونٹوں سے گلابوں نے کلَر مانگا ہے
جو کہ سنتے ہی سمجھ میں نہیں آئے فوراً
لوگ کہتے ہیں وہی شعر بڑا ہوتا ہے
دنگ رہ جاؤ گے تم دیکھ کے خلوت میں اسے
وہ جو محفل میں نظر آتا ہے ، کب ویسا ہے ؟
کیا عجب ہے اگر آ جائے مِرا دل تجھ پر
دل تو ناداں ہے ، کسی شخص پہ آ سکتا ہے
کون سا دن ہے کہ جب یاد نہ آئی اس کی
کون سی رات خیال اس کا نہیں آیا ہے !
وقت سے پہلے نہ قسمت سے زیادہ اشرف !
کچھ مِلا ہے کسی کو اور نہ کبھی مِلتا ہے
مر کے مرتا ہے کہاں کوئی سخنور اشرف !
اپنے شعروں میں ہمیشہ وہ جیا کرتا ہے