غزل برائے اصلاح تمام سخن شناس احباب کی نذر

محمد فائق

محفلین
کیونکہ دل پر تمہارا پہرا تھا
میں بھری بھیڑ میں اکیلا تھا

کام آئی کوئی دوا نہ دعا
اس قدر زخم دل کا گہرا تھا

ہم گلستاں سمجھ رہے تھے جسے
وہ حقیقت میں ایک صحرا تھا

یوں تو دیکھے کہیں حسین مگر
منفرد ان میں ایک چہرہ تھا

اف اسے با وفا سمجھ بیٹھے
بے وفائی کا جس کی شہرہ تھا

چونکہ باطل کی پیروی نہ کی
سر مرا شہسوارِ نیزہ تھا

وہ غزل کیا تمہاری تھی فائق
آج محفل میں جس کا چرچا تھا
 

الف عین

لائبریرین
غلط ہے۔
درست غزل ہے۔ماشاء اللہ۔ اب خامیوں کا ذکر

کیونکہ دل پر تمہارا پہرا تھا
میں بھری بھیڑ میں اکیلا تھا
۔۔ دو لختی کیفیت ہے۔ دونوں مصرعوں میں تعلق؟

کام آئی کوئی دوا نہ دعا
اس قدر زخم دل کا گہرا تھا
۔۔ٹھیک

ہم گلستاں سمجھ رہے تھے جسے
وہ حقیقت میں ایک صحرا تھا
۔۔ محض تک بندی۔

یوں تو دیکھے کہیں حسین مگر
منفرد ان میں ایک چہرہ تھا
۔۔ کہیں یا کئی؟ ٹھیک ہے ورنہ، ترمیم کے ساتھ

اف اسے با وفا سمجھ بیٹھے
بے وفائی کا جس کی شہرہ تھا
÷÷’اف‘ بھرتی کا ہے۔ شعر میں خاص بات نہیں۔

چونکہ باطل کی پیروی نہ کی
سر مرا شہسوارِ نیزہ تھا
۔۔ ’نہ‘ بطور ’نا‘غلط ہے۔ نہیں سے درست ہو جاتا ہے، کوئی سکتہ وکتہ نہیں آتا۔

وہ غزل کیا تمہاری تھی فائق
آج محفل میں جس کا چرچا تھا
درست
 
Top