غزل برائے اصلاح----تمہارے ملنے کو جو انتظار کے لمحے

غزل اصلاح کے لیے پیش کر رہا ہوں۔ گزراش فقط اتنی ہے کہ فقیر نے آج تک کسی سے اصلاح نہیں لی۔ اور نہ شاعری کرنے یا شاعر کہلوانے کا دعوی' کیا۔ اپنے خیالات کو جوڑتا رہا ہوں۔ ایک نو مولود بچے کی مانند حاضری دے رہا ہوں۔ امید ہے رہنما‏ئی ملے گی۔

تمہارے ملنے کو جو انتظار کے لمحے
کڑے بہت تھے اگرچہ قرار کے لمحے

تمہاری یاد کے ساون گھڑی ہو رت جیسے
تمہاری دید کے جیسے بہار کے لمحے

کلی، بہار، چمن، پھول، خوشبوئیں،بلبل
خیال یار بھی آئے نکھار کے لمحے

سفر، سراب، کڑی دھوپ، دشت، آبلہ پا
تیری تلاش میں گزرے معیارکے لمحے

ردیف و قافیہ،بندش، غزل، خیال تیرا
چھلک پڑے تھے جو آئے اتار کے لمحے

فضا میں رنگ، کھلے پھول، تتلیاں ہر سو
میں تیرا نقش بناؤں سنوار کے لمحے

شعور و عقل، خرد، ہوش سب گنوا بیٹھے
تم آئے سامنے چھائے خمار کے لمحے

میرے مزار پہ بھولے سے بھی نہیں آنا
نکل نہ آؤں میں لے کے ادھار کے لمحے

حسن نزع میں ملو گے تو عاجزی رکھنا
کہا حفیظ نے ہوں گے وقار کے لمحے

٭میرے دوست کی غزل کا شعر ہے

جو ہم نزع میں ملے توعاجزی تھی حفیظ
یہ اور بات کہ وہ تھا وقار کا لمحہ
کی طرف اشارہ ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اچھی غزل ہے حسن محمود صاحب خوش آمدید آپ کو۔۔ ۔ وزن اور بحر کا کا اچھا ادراک ہے البتہ دو الفاظ معیار(مفعول) اور نزع (فعل) کو درست نہ باندھنے کی وجہ سے مصرعے کچھ ہل گئے باقی معمولی نشست و بندش ، بیان، روانی اور اسلوب ذرا بہتر کر کے اور نکھار آسکتا ہے۔
تفصیل آئندہ ۔ اپنا کچھ اور تعارف بھی تعارف کے زمرے میں پیش کریں۔آداب
 
اچھی غزل ہے حسن محمود صاحب خوش آمدید آپ کو۔۔ ۔ وزن اور بحر کا کا اچھا ادراک ہے البتہ دو الفاظ معیار(مفعول) اور نزع (فعل) کو درست نہ باندھنے کی وجہ سے مصرعے کچھ ہل گئے باقی معمولی نشست و بندش ، بیان، روانی اور اسلوب ذرا بہتر کر کے اور نکھار آسکتا ہے۔
تفصیل آئندہ ۔ اپنا کچھ اور تعارف بھی تعارف کے زمرے میں پیش کریں۔آداب
محترم شاہ جی! آپ کی نظر عنایت پر بے حد شکر گزرا ہوں۔ تھوڑی سی توجہ اس متعلق چاہیے کہ معیار شے کی صفت ہوتی ہے اور اس معنی میں یہاں مستعمل ہے۔ اس پر مزید جرح فرما دیں۔ دوم: نزع فعل ہے اس متعلق ارشاد فرما دیں۔ کہ یہ کیفیت یا حالت کا نام نہیں ہے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جہاں تک معیار کا لفظی تعلق ہے تو معیار کا وزن ۔۔۔ مِع۔ یار ۔۔۔ہونا چاہیے، آپ کے شعر میں میار یعنی فعول کے وزن پر بندھا ہے۔اور معنوی اعتبار سے معیار کسی ایسی کسوٹی کو کہا جاتا ہے جس پر کسی چیز کو جانچ پرکھ کر اس کا درجہ مقرر کیا جاتا ہے۔ ۔۔سو اس لیے بھی معیار کے لمحے ایک مبہم تا تاثر رکھتا نظر آیا کیوں کہ پہلے مصرع میں جن مشکلات کا ذکر ہے انہیں تلاش کے لیے معیار کی نسبت دی گئی ہے ۔ لیکن یہاں مضمون بیان نہیں ھو رہا یا پھر اپنی شعری نزاکت کھو رہا ہے ۔۔ممکن ہے یہ میرا تاثر ہو ۔۔۔ نزع کا معاملہ بھی کم و بیش یہی ہے اس کا فعل ہونا اور اس سے شعر کے مضمون کا معنوی ربط مجھے کمزور لگا۔ ممکن ہے یہ بھی میری ہی رائے ہو ۔۔۔نزع کا لفظی وزن بھی ز پر نہیں رکھتا ۔ واللہ اعلم۔آداب
 

سید عاطف علی

لائبریرین
محض وزن کے لحاظ سے یوں کہا جاسکتا ہے ۔
حسن جو نزع میں ملنا تو عاجزی رکھنا۔
معیار کو بطور قافیہ یہاں لایا ہی نہیں سکتا۔(شاید:))
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، البتہ روانی کی کہیں کہیں کمی ہے۔ بنیادی مسئلہ ردیف کا ہے۔ اس قسم کی لمبی لمبی ردیفوں کو نباہنا مشکل ہی ہوا ہے۔
اب ایک ایک کر کے


تمہارے ملنے کو جو انتظار کے لمحے
کڑے بہت تھے اگرچہ قرار کے لمحے
۔۔پہلے مصرع میں بات مکمل نہیں ہوتی، دوسرے میں ’اگرچہ‘ بطور ’اگر چے‘ تقطیع ہوتا ہے۔
بہتر یوں ہو گا۔ ممکن ہے پہلا مصرع میں غلط سمجھا ہوں۔
جو تیری دید کے تھے انتظار۔۔۔
اگرچہ سخت بہت تھے قرار۔۔۔


تمہاری یاد کے ساون گھڑی ہو رت جیسے
تمہاری دید کے جیسے بہار کے لمحے
۔۔پہلے مصرع میں الفاظ ضرورت سے زیادہ، اور دوسرے میں ضرورت سے کم ہیں۔ ورنہ یوں ہونا تھا کہ یاد کی گھڑیاں ساون رت کی جیسی ہیں۔ دوسرے میں شاید یہ کہنا چاہا ہے کہ دید کے لمحے بہار کے موسم کی مانند ہیں۔ لیکن عجزِ بیان کا شکا رہو گیا۔

کلی، بہار، چمن، پھول، خوشبوئیں،بلبل
خیال یار بھی آئے نکھار کے لمحے
۔۔کیا یہ مراد ہے کہ خیال یار بھی موسم کے نکھار کی گھڑیوں میں آتا ہے؟ وہی عجزِ بیان والی بات یہاں بھی ہے۔

سفر، سراب، کڑی دھوپ، دشت، آبلہ پا
تیری تلاش میں گزرے معیارکے لمحے
۔۔قافیے کا وزن رست بھی ہوتا تب بھی معیار کے لمحے مجھے معنی خیز نہیں لگتا۔

ردیف و قافیہ،بندش، غزل، خیال تیرا
چھلک پڑے تھے جو آئے اتار کے لمحے
۔۔اتار کے لمحے بھی میری سمجھ میں نہیں آ سکا۔

فضا میں رنگ، کھلے پھول، تتلیاں ہر سو
میں تیرا نقش بناؤں سنوار کے لمحے
۔۔وقت یا لمحوں کو سنوارنا قبول کیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں اچھا شعر ہے۔ لیکن اسموں کی موجودگی میں عمل یا صفت کی حالت کا استعمال درست نہیں، میرا مطلب ’کھلے پھول‘ سے ہے۔ ’کھلے‘ کے وزن پر ’صبا‘ استعمال کرو تو شعر مزید بہتر ہو جائے۔

شعور و عقل، خرد، ہوش سب گنوا بیٹھے
تم آئے سامنے چھائے خمار کے لمحے
۔۔۔اچھا ہے شعر، شوعر و عقل میں بھی ’و‘ کی جگہ کاما ہی لگایا جائے۔

میرے مزار پہ بھولے سے بھی نہیں آنا
نکل نہ آؤں میں لے کے ادھار کے لمحے
÷÷’میرے‘ نہیں ’مرے‘ ہونا چاہئے تھا۔ یہ مصرع یوں بہتر ہوتا
مرے مزار پہ بھولے سے بھی نہ آنا تم
کہ ’بھی نہیں‘ دونوں کا مکمل آنا کچھ ناگوار محسوس ہوتا ہے۔
دوسرے مصرع میں بھی ’کے‘ کی جگہ ’کر‘ ہی استعمال کیا جائے۔ جہاں ’کر‘ بحر میں نہ آ سکے وہاں ’کے‘ کی گنجائش ہوتی ہے۔

حسن نزع میں ملو گے تو عاجزی رکھنا
کہا حفیظ نے ہوں گے وقار کے لمحے
۔۔۔نزع پر بات ہو چکی۔ نہ حفیظ کے شعر نہ اس شعر میں ’وقار‘ کے لمحے سمجھ میں نہیں آ سکے۔
 
سر آپ کی نظر پر آپ کا شکر گزار ہوں۔ در اصل اس سے پہلے کبھی اصلاح لی نہیں تھی لہذا ان آداب کا علم نہیں تھا جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے۔ میں ابھی طالب علم تو نہیں کہہ سکتے شاید داخلہ لینے کی تیاری کر رہا ہوں اس مکتب میں۔ آپ جیسے اساتذہ کی اگر شفقت رہے گی تو ممکن ہے داخل مکتب ہو جاؤں۔ جن غلطیوں کی طرف آپ نے رہنمائی فرمائی ہے ان کی درستگی کے حوالے سے کچھ ارشاد فرمادیں۔ جزاکم اللہ خیر و احسن الجزا۔
 
Top