اشرف علی
محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔
غزل
ہم بچھڑ کے آپ سے خود کو دُکھی کرتے رہے
یعنی اپنی راحتوں میں کچھ کمی کرتے رہے
عشق سے نفرت تھا اس کو ، دوستی سے پیار تھا
اس لیے ہم دوست بن کر عاشقی کرتے رہے
یوں نہ ہو ، کوئی اسے اپنا بنا لے ایک دن
یوں نہ ہو ، ہم عمر بھر بس شاعری کرتے رہے
اور کچھ کرنے کی خواہش یوں تو دل میں تھی مگر
رات بھر ان سے فقط ہم بات ہی کرتے رہے
جو کہوں گا مَیں ، کرو گے تم ، تمہارا وعدہ تھا
اس وفائے وعدہ کی پھر کیوں نفی کرتے رہے ؟
یاد تھا جب ، میں نے روکا تھا تمہیں اُس کام سے
ایسی پھر کیا وجہ تھی جو تم وہی کرتے رہے
ان سے سچا پیار ہم کرتے ہیں ، ان کو علم تھا
وہ ہمارے دل سے پھر بھی دل لگی کرتے رہے
ماسوا اس کے شبِ فرقت میں ہم کرتے بھی کیا
بس تہجد میں دعائیں وصل کی کرتے رہے
وہ ہمیشہ کی طرح آیا نہیں ملنے مگر
انتظار اس شخص کا ہم آج بھی کرتے رہے
رائے لی مجھ سے نہ کوئی بات ہی مانی مِری
ان کو جو اچھا لگا وہ بس وہی کرتے رہے
ہم تو سمجھے تھے جدا ہوتے ہی وہ مر جائیں گے
لیکن اوروں کی طرح وہ زندگی کرتے رہے
رب ہی جانے اس شگفتہ رو سے کب ہوگا مِلن
آج تک ہم جس پہ اشرف شاعری کرتے رہے
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔
غزل
ہم بچھڑ کے آپ سے خود کو دُکھی کرتے رہے
یعنی اپنی راحتوں میں کچھ کمی کرتے رہے
عشق سے نفرت تھا اس کو ، دوستی سے پیار تھا
اس لیے ہم دوست بن کر عاشقی کرتے رہے
یوں نہ ہو ، کوئی اسے اپنا بنا لے ایک دن
یوں نہ ہو ، ہم عمر بھر بس شاعری کرتے رہے
اور کچھ کرنے کی خواہش یوں تو دل میں تھی مگر
رات بھر ان سے فقط ہم بات ہی کرتے رہے
جو کہوں گا مَیں ، کرو گے تم ، تمہارا وعدہ تھا
اس وفائے وعدہ کی پھر کیوں نفی کرتے رہے ؟
یاد تھا جب ، میں نے روکا تھا تمہیں اُس کام سے
ایسی پھر کیا وجہ تھی جو تم وہی کرتے رہے
ان سے سچا پیار ہم کرتے ہیں ، ان کو علم تھا
وہ ہمارے دل سے پھر بھی دل لگی کرتے رہے
ماسوا اس کے شبِ فرقت میں ہم کرتے بھی کیا
بس تہجد میں دعائیں وصل کی کرتے رہے
وہ ہمیشہ کی طرح آیا نہیں ملنے مگر
انتظار اس شخص کا ہم آج بھی کرتے رہے
رائے لی مجھ سے نہ کوئی بات ہی مانی مِری
ان کو جو اچھا لگا وہ بس وہی کرتے رہے
ہم تو سمجھے تھے جدا ہوتے ہی وہ مر جائیں گے
لیکن اوروں کی طرح وہ زندگی کرتے رہے
رب ہی جانے اس شگفتہ رو سے کب ہوگا مِلن
آج تک ہم جس پہ اشرف شاعری کرتے رہے