غزل برائے اصلاح : خوابوں کا وہ اک کانچ نگر جوڑ رہا تھا

سر الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: اصلاح فرما دیجئے۔۔۔


مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل

خوابوں کا وہ اک کانچ نگر جوڑ رہا تھا
بچوں کے لئے باپ جو گھر جوڑ رہا تھا

قاتل کو مرے قتل کا پچھتاوہ ہوا کیا
گردن سے مری وہ مرا سر جوڑ رہا تھا

بچوں کو گوارا نہیں وہ حال بھی پوچھیں
تو کس کے لئے بنکوں میں زر جوڑ رہا تھا

سوچا تھا یہ کس نے وہ مرا قتل کرے گا
تتلی کے جو ٹوٹے ہوئے پر جوڑ رہا
تھا

مجھ سے اسے کس بات کی ہمدردی تھی وہ تو
اخبار میں دینے کو خبر جوڑ رہا تھا

عمران مجھے چور سمجھ بیٹھا زمانہ
گھر کا میں تو ٹوٹا ہوا در جوڑ رہا تھا

شکریہ
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
سوچا تھا یہ کس نے وہ مرا قتل کرے
تتلی کے جو ٹوٹے ہوئے پر جوڑ رہا تھا
.. شاید پہلے مصرع کے آخر میں 'گا' چھوٹ گیا ہے لکھنے میں

گھر کا میں تو ٹوٹا ہوا در جوڑ رہا تھا
.....میں تو محض 'مَتُ' تقطیع ہوتا ہے، یہ اسقاط درست نہیں لگتا
بس، گھر کا میں ٹوٹا.....
کیا جا سکتا ہے
باقی اشعار درست ہیں
 
سوچا تھا یہ کس نے وہ مرا قتل کرے
تتلی کے جو ٹوٹے ہوئے پر جوڑ رہا تھا
.. شاید پہلے مصرع کے آخر میں 'گا' چھوٹ گیا ہے لکھنے میں

گھر کا میں تو ٹوٹا ہوا در جوڑ رہا تھا
.....میں تو محض 'مَتُ' تقطیع ہوتا ہے، یہ اسقاط درست نہیں لگتا
بس، گھر کا میں ٹوٹا.....
کیا جا سکتا ہے
باقی اشعار درست ہیں
بہت شکریہ سر۔۔۔ سلامت رہیں

خوابوں کا وہ اک کانچ نگر جوڑ رہا تھا
بچوں کے لئے باپ جو گھر جوڑ رہا تھا

قاتل کو مرے قتل کا پچھتاوہ ہوا کیا
گردن سے مری وہ مرا سر جوڑ رہا تھا

بچوں کو گوارا نہیں وہ حال بھی پوچھیں
تو کس کے لئے بنکوں میں زر جوڑ رہا تھا

سوچا تھا یہ کس نے وہ مرا قتل کرے گا
تتلی کے جو ٹوٹے ہوئے پر جوڑ رہا تھا

مجھ سے اسے کس بات کی ہمدردی تھی وہ تو
اخبار میں دینے کو خبر جوڑ رہا تھا

عمران مجھے چور سمجھ بیٹھا زمانہ
بس گھر کا میں ٹوٹا ہوا در جوڑ رہا تھا

شکریہ
 
برادرم عمرانؔ صاحب، آداب!
بحر کے اسٹینڈرڈ افاعیل ’’مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن‘‘ اختیار کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ :)
جہاں ضرورت محسوس ہو وہاں آخری رکن کو فعولان کردیں؟

خا بو کَ ۔۔۔ مف عو ل
وُ اک کا چ ۔۔۔ م فا عی ل
ن گر جو ڑ ۔۔۔۔ م فا عی ل
ر ہا تا ۔۔۔۔ ف عو لن

ویسے ’’گھر جوڑنا‘‘ محاورہ میرے لئے نامانوس ہے۔ تنکا تنکا جوڑ کر گھر یا آشیاں بنانا تو پڑھا، سنا ہے۔ اگر کوئی اور مثال مل سکے تو ممنون رہوں گا۔
ایک اور مشورہ ہے، امید ہے آپ غور کریں گے۔
ایک غزل میں ایک سے الفاظ اور مضامین کی تکرار سے جتنا گریز کریں گے، اتنا اچھا تاثر ابھرے گا۔

دعاگو،
راحلؔ
 
برادرم عمرانؔ صاحب، آداب!
بحر کے اسٹینڈرڈ افاعیل ’’مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن‘‘ اختیار کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ :)
جہاں ضرورت محسوس ہو وہاں آخری رکن کو فعولان کردیں؟

خا بو کَ ۔۔۔ مف عو ل
وُ اک کا چ ۔۔۔ م فا عی ل
ن گر جو ڑ ۔۔۔۔ م فا عی ل
ر ہا تا ۔۔۔۔ ف عو لن

ویسے ’’گھر جوڑنا‘‘ محاورہ میرے لئے نامانوس ہے۔ تنکا تنکا جوڑ کر گھر یا آشیاں بنانا تو پڑھا، سنا ہے۔ اگر کوئی اور مثال مل سکے تو ممنون رہوں گا۔
ایک اور مشورہ ہے، امید ہے آپ غور کریں گے۔
ایک غزل میں ایک سے الفاظ اور مضامین کی تکرار سے جتنا گریز کریں گے، اتنا اچھا تاثر ابھرے گا۔

دعاگو،
راحلؔ

اِس طرح یا اُس طرح بحر تو پھر بھی وہی رہے گی۔۔۔ ڈاکٹر نثار اکبر آبادی نے تو اسے یوں بھی لکھا ہے
فعلن فعلاتن فعلاتن فعلاتن

گھر جوڑنا واقعی محاورہ نہیں ، میری مادری زبان میں استعمال ہوتا ہے۔۔۔
اسکا کوئی متبادل ملا تو ضرور بدل لوں گا۔۔۔

یا اسے یوں لیا جائے گھر پہلے سے بنا ہوا ہے ٹوٹنے کی وجہ سے اسے دوبارہ جوڑا جا رہا ہے۔۔۔
متبادل شعر دیکھئے

بچوں کے لئے کانچ کا گھر جوڑ رہا تھا
ٹوٹا تھا کئی بار مگر جوڑ رہا تھا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مطلع اصل والا ہی نہیں بہتر ہے۔ گھر جوڑنا پر میں نے قدغن نہیں کی تھی، یہاں دکن میں بھی محاورہ 'گھر باندھنا' بولا جاتا ہے
 
Top