زبیر صدیقی
محفلین
السلام علیکم۔ محترم اساتذہ کی خدمت میں ایک غزل پیش ہے، مہربانی فرما کر رائے سے نوازیں۔
الف عین سید عاطف علی محمّد احسن سمیع :راحل: محمد خلیل الرحمٰن
دردِ دل کی نہیں ہے حد – حد ہے!
یوں لگے ہے یہ تا ابد – حد ہے!
گِنّے بیٹھا میں زندگی کے غم
ڈھونڈتا رہ گیا عدد – حد ہے!
دِن ڈھلا تو ذرا بڑھے سائے
زَعم ہے، بڑھ گئے ہیں قَد – حد ہے!
حدِّ طوفاں ہو کیا؟ سوا اِس کے
لہر کا جِس قدر ہے مد ، حد ہے
دیکھے ناز و غرور و جاہ و حَشَم
دیکھی پر ایک سی لحد – حد ہے!
ہے عجب چیز ،انتظار تِرا
اِس نے ہر چیز کی ہے رد – حد ہے!
اِک زمانے سے ساتھ ہوں اپنے
اور خود سے ہوں نا بلد – حد ہے!
اِتنی محدود زندگی میں بھی
جنگ میں ہیں دل و خِرَد – حد ہے!
والسلام
الف عین سید عاطف علی محمّد احسن سمیع :راحل: محمد خلیل الرحمٰن
دردِ دل کی نہیں ہے حد – حد ہے!
یوں لگے ہے یہ تا ابد – حد ہے!
گِنّے بیٹھا میں زندگی کے غم
ڈھونڈتا رہ گیا عدد – حد ہے!
دِن ڈھلا تو ذرا بڑھے سائے
زَعم ہے، بڑھ گئے ہیں قَد – حد ہے!
حدِّ طوفاں ہو کیا؟ سوا اِس کے
لہر کا جِس قدر ہے مد ، حد ہے
دیکھے ناز و غرور و جاہ و حَشَم
دیکھی پر ایک سی لحد – حد ہے!
ہے عجب چیز ،انتظار تِرا
اِس نے ہر چیز کی ہے رد – حد ہے!
اِک زمانے سے ساتھ ہوں اپنے
اور خود سے ہوں نا بلد – حد ہے!
اِتنی محدود زندگی میں بھی
جنگ میں ہیں دل و خِرَد – حد ہے!
والسلام