غزل برائے اصلاح : دلربا مسئلہ ہو گیا

سر الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: اصلاح فرمائیں۔۔۔
فاعلن فاعلن فاعلن

دلربا مسئلہ ہو گیا
مجھکو تیرا نشہ ہو گیا

بے وفا تم سے مل کر مجھے
پیار کا تجربہ ہو گیا

دیکھ کر دھوپ میں اک شجر
اب مجھے حوصلہ ہو گیا

مل گئی عشق میں عمر قید
کیس کا فیصلہ ہو گیا

بن گیا میں بھی شاعر صنم
دیکھئے معجزہ ہو گیا

اب بھلائی بچھڑنے میں ہے
آخرش فیصلہ ہو گیا

چوم بیٹھا ترا ہاتھ میں
مجھ سے بے ساختہ ہو گیا

گھر میں عمران کہرام ہے
میں کہیں لا پتہ ہو گیا

بہت شکریہ
 
آخری تدوین:
غزل اچھی لگی۔ مطلع میں نشہ کا تلفظ شاید استاد محترم قبول نہ کریں :)

دیکھتے اسکو آج
کار سے حادثہ ہو گیا
یہ شعر بھرتی کا معلوم ہوتا ہے بس، غزل میں اشعار کی تعداد مناسب ہے تو اس کو برقرار رکھنا اتنا ضروری بھی نہیں، باقی آپکی صوابدید پر منحصر ہے۔

پیار خود رو شجر ہے کوئی
خود بخود جس جگہ ہو گیا
دوسرے مصرعے کو ایک بار اور دیکھ لیں، مزید بہتری کی گنجائش ہے۔

دعاگو،
راحل
 
غزل اچھی لگی۔ مطلع میں نشہ کا تلفظ شاید استاد محترم قبول نہ کریں :)


یہ شعر بھرتی کا معلوم ہوتا ہے بس، غزل میں اشعار کی تعداد مناسب ہے تو اس کو برقرار رکھنا اتنا ضروری بھی نہیں، باقی آپکی صوابدید پر منحصر ہے۔


دوسرے مصرعے کو ایک بار اور دیکھ لیں، مزید بہتری کی گنجائش ہے۔

دعاگو،
راحل
اسے اگر یوں کر دیا جائے۔۔۔

پیار خود رو شجر ہے کوئی
ہو گیا ، جس جگہ ہو سکتا

دیکھتے دیکھتے اسکو آج
پھر کوئی حادثہ ہو گیا
یا
چوک میں حادثہ ہو گیا
 

الف عین

لائبریرین
حادثہ والا شعر نکال ہی دو
شجر والا شعر میں عجز بیان ہے۔ شجر ہونا کوئی فعل نہیں، شجر پیدا ہونا، یا شجر آگ آنا ہوتا تو درست ہوتا۔
چھوٹی بحر میں الفاظ کی تنگی رہتی ہی ہے، اس لیے 'مشہ' ، فعو، قبول کیا جا سکتا ہے
 
حادثہ والا شعر نکال ہی دو
شجر والا شعر میں عجز بیان ہے۔ شجر ہونا کوئی فعل نہیں، شجر پیدا ہونا، یا شجر آگ آنا ہوتا تو درست ہوتا۔
چھوٹی بحر میں الفاظ کی تنگی رہتی ہی ہے، اس لیے 'مشہ' ، فعو، قبول کیا جا سکتا ہے
بہت شکریہ سر۔۔۔ ایسا ہی کرنا درست ہے۔۔۔
 
Top