غزل برائے اصلاح : دل نہ بہلے : عمران نیازی

Imran Niazi

محفلین
اسلام و علیکم

دل نہ بہلے نہ میری آنکھ کی لالی جائے
روز ہی ضبط کی مقدار بڑھا لی جائے
یا تو ایسا ہو کسی دن وہ مجھے آن ملے
یا کسی طور مری خام خیالی جائے
اُس کے ہر جرم پہ، ہر ظلم پہ پردہ ہی رہے
میری ہر بات سرِ عام اچھالی جائے
کب تلک خود کو اندھیرے میں‌رکھیں
آج کی رات کوئی شمع جلا لی جائے
ماتمِ ہجر تو تنہائی طلب ہوتا ہے
یہ غلط ہے کے دنیا بھی بلا لی جائے
ایسے لوٹا ہوں میں‌ناکام امیدوں کو لیئے
جیسے‌کالی کسی چوکھٹ سے سوالی جائے
جس نے سایہ بھی دیا ہے تو سدا جلتا ہوا
زندگی کی یہی دیوار گرا لی جائے
میں‌نے اپنوں سے نہیں جان بھی پیاری کی کبھی
یہ خیانت نہ مرے حصے میں‌ڈالی جائے
لوگ ہنستے ہیں کہ عمران نے دھوکا کھایا
یہ نئی بات نہیں یوں نہ اچھالی جائے
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء ناللہ اچھی غزل ہے۔ مطلع پسند آیا۔
یہ مصرع
کب تلک خود کو اندھیرے میں‌رکھیں
ایک رکن کم ہے، یوں کہو۔
کب تلک خود کو اندھیرے میں اسی طرح ‌رکھیں

ماتمِ ہجر تو تنہائی طلب ہوتا ہے
یہ غلط ہے کے دنیا بھی بلا لی جائے
دوسرا مصرع بحر سے خارج۔۔ یوں ہو سکتا ہے
یہ غلط بات کہ دنیا بھی بلا لی جائے

جس نے سایہ بھی دیا ہے تو سدا جلتا ہوا
زندگی کی یہی دیوار گرا لی جائے
میں‌نے اپنوں سے نہیں جان بھی پیاری کی کبھی
یہ خیانت نہ مرے حصے میں‌ڈالی جائے

ان دونوں اشعار میں ترسیل و ابلاغ کا مسئلہ ہے، بات واضح نہیں ہو رہی۔
پہلے شعر کے پہلے مصرع میں ’جس‘ سے خیال ’دیوار ‘ کی طرف نہیں جاتا، کسی شخص، محبوب کا خیال آتا ہے۔
اور دیواریں زندگی میں کہاں ہوتی ہیں؟
دوسرے شعر کا پہلا مصرع واضح نہیں۔
 

manjoo

محفلین
یا تو ایسا ہو کسی دن وہ مجھے آن ملے
یا کسی طور مری خام خیالی جائے

بہت خوب نیازی صاحب۔
کوئ سرائیکی وی سناؤ
 

Imran Niazi

محفلین
ماشاء ناللہ اچھی غزل ہے۔ مطلع پسند آیا۔
یہ مصرع
کب تلک خود کو اندھیرے میں‌رکھیں
ایک رکن کم ہے، یوں کہو۔
کب تلک خود کو اندھیرے میں اسی طرح ‌رکھیں

ماتمِ ہجر تو تنہائی طلب ہوتا ہے
یہ غلط ہے کے دنیا بھی بلا لی جائے
دوسرا مصرع بحر سے خارج۔۔ یوں ہو سکتا ہے
یہ غلط بات کہ دنیا بھی بلا لی جائے

جس نے سایہ بھی دیا ہے تو سدا جلتا ہوا
زندگی کی یہی دیوار گرا لی جائے
میں‌نے اپنوں سے نہیں جان بھی پیاری کی کبھی
یہ خیانت نہ مرے حصے میں‌ڈالی جائے

ان دونوں اشعار میں ترسیل و ابلاغ کا مسئلہ ہے، بات واضح نہیں ہو رہی۔
پہلے شعر کے پہلے مصرع میں ’جس‘ سے خیال ’دیوار ‘ کی طرف نہیں جاتا، کسی شخص، محبوب کا خیال آتا ہے۔
اور دیواریں زندگی میں کہاں ہوتی ہیں؟
دوسرے شعر کا پہلا مصرع واضح نہیں۔

بہت بہت شکریہ سر،
یہ غلط بات کہ دنیا بھی بلا لی جائے یہ تو استعمال ہو سکتا ہے نا ؟

اور ، میں‌نے اپنوں سے نہیں جان بھی پیاری کی کبھی
یہ خیانت نہ مرے حصے میں‌ڈالی جائے، اس شعر میں کہنے کا مقصد ہے کہ میں کسی دوست سے تو کچھ پیارا نہیں کیا تو یہ بھی تو ایک خیانت ہے سو اسے میرے میں‌نہ ڈالیں​
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات تو میری اصلاح کی ہی ہے، اس کو بے شک قبول کر سکتے ہو۔
لیکن دوسری بات اب بھی میری ناقص سمجھ سے بالاتر ہے۔
 
Top