غزل برائے اصلاح : دل ہے منزل کی جانب رواں آج پھر

انس معین

محفلین
سر غزل برائے اصلاح
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:

درد ہونے لگے ہیں جواں آج پھر
دل ہے منزل کی جانب رواں آج پھر
---------------------------
رات خاموش ہے چاند سہما ہوا
کتنا سونا لگے یہ جہاں آج پھر
---------------------------
پھر سلگنے لگے تیری یادوں میں ہم
دل سے اٹھنے لگا اک دھواں آج پھر
---------------------------
نام لیتے ترا آنکھ نم کیوں ہوئی
لڑکھڑائی مری کیوں زباں آج پھر
---------------------------
آنکھ قسمت کو روئے یا چومیں انہیں
تیرے قدموں کے دیکھے نشاں آج پھر
---------------------------
آج پھر غزل کہی ؟ یار پوچھیں مجھے
تیرے چہرے پہ ہے غم عیاں آج پھر
---------------------------
کوئی احمد کو روکے وہ نادان ہے
حالِ دل کر رہا ہے بیاں آج پھر
 
آخری تدوین:
بہت خوب بہت اچھےالفاظ ہیں، صرف ایک جگہ تھوڑی غلط فہمی کا امکان ہے۔تیرے قدموں کے پائے نشاں۔ لفظ پائے کی جگہ اگر دیکھے نشاں کر لیں تو زیادہ واضع بات ہو گی
 

انس معین

محفلین
بہت خوب بہت اچھےالفاظ ہیں، صرف ایک جگہ تھوڑی غلط فہمی کا امکان ہے۔تیرے قدموں کے پائے نشاں۔ لفظ پائے کی جگہ اگر دیکھے نشاں کر لیں تو زیادہ واضع بات ہو گی
بہت شکریہ ۔ ارشد بھائی ۔ تدوین کیے دیتا ہوں ۔ استاد محترم کے آنے سے پہلے
 
احمدؔ صاحب، آداب!

امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔ اچھی کاوش ہے، جس میں ایک مصرعے کے وزن کے علاوہ، جس کی کل نشاندہی کی تھی، سامنے کی غلطیاں نہیں ہیں۔ بہت خوب، اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ اب اگر اجازت ہو تو کچھ تاثرات بیان کرتا چلوں۔

درد ہونے لگے ہیں جواں آج پھر
دل ہے منزل کی جانب رواں آج پھر
دل کے منزل کے جانب رواں ہونے سے درد کیوں جوان ہورہا ہے؟ یہ بات خلاف فطرت نہیں محسوس ہوتی؟ اگر دوسرے مصرعے میں یہ کہا جارہا ہو کہ آج پھر کوچۂ جاناں کی جانب عازم سفر ہیں تو بات بن سکتی ہے۔ کیا خیال ہے؟

رات خاموش ہے چاند سہما ہوا
کتنا سونا لگے یہ جہاں آج پھر
رات کیوں خاموش ہے، چاند کیوں سہما ہوا ہے، جہاں کیوں سونا لگ رہا ہے؟ شعر میں اس سب کی وجۂ تسمیہ موجود نہیں، اور قاری اپنے اٹکل سے کام لے کر یہ سوچ رہا ہے کہ غالباً آج محبوب کا ساتھ میسر نہیں اس لئے شاعر پر یہ کیفیات طاری ہیں۔ واللہ اعلم۔ ہمارے کچھ بزرگ اس طرح کے طرزِ بیان کے حامل اشعار کو ’’مشاعرے‘‘ کے شعر کہاکرتے تھے۔ یعنی مشاعرے میں شاعر اپنے لہجے سے ایسے اشعار میں معنی کا تعین کردیتا ہے، شعر میں جان آجاتی ہے اور سامعین اش اش کر اٹھتے ہیں :)

پھر سلگنے لگے تیری یادوں میں ہم
دل سے اٹھنے لگا اک دھواں آج پھر
اچھا ہے، ماشاءاللہ ۔۔۔ بس دو چھوٹی سی باتیں ۔۔۔ ’’یادوں میں سلگنا‘‘ کی بجائے ’’یادوں سے سلگنا‘‘ بہتر نہیں ہوگا؟؟؟ ’’اک دھواں‘‘ غیر فصیح معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بجائے دوسرے مصرعے میں ’’ہے‘‘ استعمال کریں، یعنی ’’دل سے اٹھنے لگا ہے دھواں آج پھر‘‘
 
آخری تدوین:

انس معین

محفلین
السلام علیکم ۔ راحل بہت شکریہ آپ کے قیمتی وقت کا ۔ میں ان نکات کو بغور دیکھتا ہوں ۔ ۔۔
معضرت کے ساتھ ۔ کل مینے وہ مصرع میں وزن کی غلطی کی نشاندہی دیکھی ۔ مگر اس کوئی مصرع زہن میں بن نہیں پایا ۔ سو آپ کے مکمل جواب کا انتظار کیا ۔
بہت شکریہ اللہ آپ کو سلامت رکھے ۔
 

انس معین

محفلین
رات کیوں خاموش ہے، چاند کیوں سہما ہوا ہے، جہاں کیوں سونا لگ رہا ہے؟ شعر میں اس سب کی وجۂ تسمیہ موجود نہیں، اور قاری اپنے اٹکل سے کام لے کر یہ سوچ رہا ہے کہ غالباً آج محبوب کا ساتھ میسر نہیں اس لئے شاعر پر یہ کیفیات طاری ہیں۔ واللہ اعلم۔ ہمارے کچھ بزرگ اس طرح کے طرزِ بیان کے حامل اشعار کو ’’مشاعرے‘‘ کے شعر کہاکرتے تھے۔ یعنی مشاعرے میں شاعر اپنے لہجے سے ایسے اشعار میں معنی کا تعین کردیتا ہے، شعر میں جان آجاتی ہے اور سامعین اش اش کر اٹھتے ہیں :)

یہ شعر تکنیکی لحاظ سے درست ہے کیا ؟
 
نام لیتے ترا آنکھ نم کیوں ہوئی
لڑکھڑائی مری کیوں زباں آج پھر
’’نام لیتے ترا‘‘ کہنا درست نہیں ۔۔۔ یا تو ’’نام لیتے ہی تیرا‘‘ ہونا چاہیئے یا پھر ’’نام لے کر ترا‘‘
اس کے علاوہ، دونوں مصرعوں میں جو ’’کیوں‘‘ ہے، وہ بھی جواب طلب ہے اور غیرضروری ابہام پیدا کر رہی ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں۔
نام لیتے ہی تیرا ہوئی آنکھ نم
لڑکھڑانے لگی ہے زباں آج پھر
ایک باریک سا نکتہ ضمناً عرض کرتا چلوں، جو مرشدی و استاذی جناب قبلہ سرور رازؔ صاحب سے سیکھنے کو ملا تھا۔ ایک بار کسی محفل میں راقم نے بھی کسی غزل میں یوں ہی ’’آنکھ نم ہونا‘‘ باندھا تھا جس پر استادِ محترم نے تنبیہ فرمائی کہ ’’آنکھ نم ہونا‘‘ محاورتاً غلط ہے۔ نمی ایک مستقل، الگ شے ہے جو اگر آنکھ یا کسی اور چیز میں موجود ہو تو وہ ’’پُر نم‘‘ کہلائے گی۔ جواباً میں نے ہمت کرکے اقبالؔ کا مشہور شعر پیش کیا جس کا مصرعہ ثانی ہے ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ ۔۔۔ جس پر استاذی بہت محظوظ ہوئے، مگر ارشاد فرمایا کہ یہ صورت غلط العام ہے۔ اس کے بعد غلط العوام، غلط العام اور غلط العام فصیح کا فرق بھی سمجھایا۔ خیر، یہ تو علمی بات تھی۔ آنکھ نم ہونا میری ناچیز رائے میں اب غلط العام فصیح ہی کے درجے میں ہے کہ اقبالؔ ایسے عظیم شاعر کے یہاں اس کی نظیر موجود ہے (اور میں خود بھی عروض بندشوں کے سبب کبھی کبھار ایسے ہی استعمال کرتا ہوں، مگر کوشش ہوتی ہے کہ جہاں بحر کی بندشیں حائل نہ ہو رہی ہوں، وہاں ’’پُرنم‘‘ ہی باندھوں)۔

آنکھ قسمت کو روئے یا چومیں انہیں
تیرے قدموں کے دیکھے نشاں آج پھر
پہلے مصرعے میں بات نہیں بن رہی صاحب۔ آنکھوں کے رونے کے مقابل لبوں کا/سے چومنا ہو تو بات بنے! کوشش کرکے دیکھیں۔

آج پھر غزل کہی ؟ یار پوچھیں مجھے
تیرے چہرے پہ ہے غم عیاں آج پھر
پہلا مصرعہ مجھے بحر سے خارج محسوس ہوتا ہے۔ بیان بھی اتنا واضح نہیں ہے۔ مزید یہ کہ’’چہرے پہ عیاں‘‘ کہنا غلط ہے، ’’چہرے سے عیاں‘‘ درست ہوگا۔
یوں سوچ کر دیکھیں؟
جب غزل ہی نہیں کہہ سکا میں، تو کیوں
میرے چہرے سے ہے غم عیاں آج پھر؟

کوئی احمد کو روکے وہ نادان ہے
حالِ دل کر رہا ہے بیاں آج پھر
محض حالِ دل کے بیان سے کسی کا نادان ہونا کیونکر صادق آسکتا ہے؟ مضمون کو تھوڑا بدل کر دیکھیں مثلا ’’احمدؔ محفلِ اغیار میں حالِ دل بیان کر کے نادانی کررہا ہے‘‘ وغیرہ۔

دعاگو،
راحلؔ
 
آخری تدوین:

انس معین

محفلین
راحل میاں نے میری غیر موجودگی میں اصلاح کی ذمے داری اٹھا لی، ان کا خصوصی شکریہ
بلکل استادِ محترم راحل بھائی بہت محنت کے ساتھ اصلاح کرتے ہیں۔لیکن آپ کی غیر موجودگی کا احساس بارہا ہوتا رہا ۔ اللہ آپ کو سب کو سلامت رکھے اور اجرِ عظیم عطا فرمائے ۔ آمین
 
Top