محمد احسن سمیع راحلؔ
محفلین
معزز اساتذۂ محفل و دیگر عزیزان گرامی، آداب!
ایک غزل بغرض اصلاح و تبصرہ پیش خدمت ہے. دراصل یہ زمین مجھے کچھ گنجلک سی محسوس ہوئی، اس لئے ضروری سمجھا کہ حتمی شکل دینے سے پہلے اساتذہ کے زیر نظر لائی جائے.
مرشدی و استاذی جناب الف عین صاحب، قبلہ جناب محمد خلیل الرحمٰن بھائی، قبلہ جناب ظہیراحمدظہیر بھائی اور سیدی سید عاطف علی بھائی سے توجہ کی خصوصی درخواست ہے. دیگر محفلین بھی اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کریں.
دعاگو،
راحلؔ.
...........................................................
دیدۂ اختر فشاں میں اشک اب آئیں تو کیوں؟
مرقدِ حسرت کو ہم شبنم سے نہلائیں تو کیوں؟
جب میسر ہے یہیں وحشت ترے جانے کے بعد
تیرے غم میں چھوڑ کر بستی کو بن جائیں تو کیوں؟
یا پھر...
چھوڑ کر بستی کو بن کی اور ہم جائیں تو کیوں؟
اب کہاں فاروقؓ سا کوئی جو ڈھو لائے اناج
مائیں پھر روتے ہوئے بچوں کو بہلائیں تو کیوں؟
اس کی خاطر، جو یہ آنکھیں ہی نہ پڑھ پایا کبھی
حالِ دل کو جامۂ الفاظ پہنائیں تو کیوں؟
جذب کرکے بھی نہ ان کو نرم ہو پائے اگر
ہم پھر اس قلبِ حجر پر اشک ٹپکائیں تو کیوں؟
یا پھر ...
تند جوئے آب میں بھی نرم جو پڑتا نہیں
ایسے پتھر دل پر اپنے اشک ٹپکائیں تو کیوں؟
سر جھکا کر بھی بھلا ہم کون سا جی پائیں گے
یا...
سر جھکا کر بھی ہم اپنا کتنے دن جی پائیں گے
چند لقموں کے لئے پھر ہاتھ پھیلائیں تو کیوں؟
روح فرسائی پر اب کیا خامہ فرسائی کریں
زخمِ بے مرہم کو ہم قرطاس پر لائیں تو کیوں؟
دیدۂ دل سے حقیقت جو نظر آتی ہو صاف
یا پھر...
جو حقیقت دیدہِ دل سے نظر آتی ہو صاف
بے حجاب اس کو کریں کیوں، پردہ اٹھوائیں تو کیوں؟
گھوم کر راحلؔ اسی منزل پہ جب آنا ہے، پھر
زندگی کے اسپِ بے پروا کو دوڑائیں تو کیوں؟
ایک غزل بغرض اصلاح و تبصرہ پیش خدمت ہے. دراصل یہ زمین مجھے کچھ گنجلک سی محسوس ہوئی، اس لئے ضروری سمجھا کہ حتمی شکل دینے سے پہلے اساتذہ کے زیر نظر لائی جائے.
مرشدی و استاذی جناب الف عین صاحب، قبلہ جناب محمد خلیل الرحمٰن بھائی، قبلہ جناب ظہیراحمدظہیر بھائی اور سیدی سید عاطف علی بھائی سے توجہ کی خصوصی درخواست ہے. دیگر محفلین بھی اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کریں.
دعاگو،
راحلؔ.
...........................................................
دیدۂ اختر فشاں میں اشک اب آئیں تو کیوں؟
مرقدِ حسرت کو ہم شبنم سے نہلائیں تو کیوں؟
جب میسر ہے یہیں وحشت ترے جانے کے بعد
تیرے غم میں چھوڑ کر بستی کو بن جائیں تو کیوں؟
یا پھر...
چھوڑ کر بستی کو بن کی اور ہم جائیں تو کیوں؟
اب کہاں فاروقؓ سا کوئی جو ڈھو لائے اناج
مائیں پھر روتے ہوئے بچوں کو بہلائیں تو کیوں؟
اس کی خاطر، جو یہ آنکھیں ہی نہ پڑھ پایا کبھی
حالِ دل کو جامۂ الفاظ پہنائیں تو کیوں؟
جذب کرکے بھی نہ ان کو نرم ہو پائے اگر
ہم پھر اس قلبِ حجر پر اشک ٹپکائیں تو کیوں؟
یا پھر ...
تند جوئے آب میں بھی نرم جو پڑتا نہیں
ایسے پتھر دل پر اپنے اشک ٹپکائیں تو کیوں؟
سر جھکا کر بھی بھلا ہم کون سا جی پائیں گے
یا...
سر جھکا کر بھی ہم اپنا کتنے دن جی پائیں گے
چند لقموں کے لئے پھر ہاتھ پھیلائیں تو کیوں؟
روح فرسائی پر اب کیا خامہ فرسائی کریں
زخمِ بے مرہم کو ہم قرطاس پر لائیں تو کیوں؟
دیدۂ دل سے حقیقت جو نظر آتی ہو صاف
یا پھر...
جو حقیقت دیدہِ دل سے نظر آتی ہو صاف
بے حجاب اس کو کریں کیوں، پردہ اٹھوائیں تو کیوں؟
گھوم کر راحلؔ اسی منزل پہ جب آنا ہے، پھر
زندگی کے اسپِ بے پروا کو دوڑائیں تو کیوں؟