غزل برائے اصلاح: دیدۂ اختر فشاں میں اشک اب آئیں تو کیوں؟

معزز اساتذۂ محفل و دیگر عزیزان گرامی، آداب!

ایک غزل بغرض اصلاح و تبصرہ پیش خدمت ہے. دراصل یہ زمین مجھے کچھ گنجلک سی محسوس ہوئی، اس لئے ضروری سمجھا کہ حتمی شکل دینے سے پہلے اساتذہ کے زیر نظر لائی جائے.
مرشدی و استاذی جناب الف عین صاحب، قبلہ جناب محمد خلیل الرحمٰن بھائی، قبلہ جناب ظہیراحمدظہیر بھائی اور سیدی سید عاطف علی بھائی سے توجہ کی خصوصی درخواست ہے. دیگر محفلین بھی اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کریں.

دعاگو،
راحلؔ.
...........................................................

دیدۂ اختر فشاں میں اشک اب آئیں تو کیوں؟
مرقدِ حسرت کو ہم شبنم سے نہلائیں تو کیوں؟

جب میسر ہے یہیں وحشت ترے جانے کے بعد
تیرے غم میں چھوڑ کر بستی کو بن جائیں تو کیوں؟
یا پھر...
چھوڑ کر بستی کو بن کی اور ہم جائیں تو کیوں؟

اب کہاں فاروقؓ سا کوئی جو ڈھو لائے اناج
مائیں پھر روتے ہوئے بچوں کو بہلائیں تو کیوں؟

اس کی خاطر، جو یہ آنکھیں ہی نہ پڑھ پایا کبھی
حالِ دل کو جامۂ الفاظ پہنائیں تو کیوں؟


جذب کرکے بھی نہ ان کو نرم ہو پائے اگر
ہم پھر اس قلبِ حجر پر اشک ٹپکائیں تو کیوں؟
یا پھر ...
تند جوئے آب میں بھی نرم جو پڑتا نہیں
ایسے پتھر دل پر اپنے اشک ٹپکائیں تو کیوں؟


سر جھکا کر بھی بھلا ہم کون سا جی پائیں گے
یا...
سر جھکا کر بھی ہم اپنا کتنے دن جی پائیں گے
چند لقموں کے لئے پھر ہاتھ پھیلائیں تو کیوں؟


روح فرسائی پر اب کیا خامہ فرسائی کریں
زخمِ بے مرہم کو ہم قرطاس پر لائیں تو کیوں؟

دیدۂ دل سے حقیقت جو نظر آتی ہو صاف
یا پھر...
جو حقیقت دیدہِ دل سے نظر آتی ہو صاف
بے حجاب اس کو کریں کیوں، پردہ اٹھوائیں تو کیوں؟

گھوم کر راحلؔ اسی منزل پہ جب آنا ہے، پھر
زندگی کے اسپِ بے پروا کو دوڑائیں تو کیوں؟
 

الف عین

لائبریرین
باقی تو اچھی غزل ہے، متبادل مصرعوں پر اپنی رائے دے دیتا ہوں
تیرے غم میں چھوڑ کر بستی کو بن جائیں تو کیوں؟
یا پھر...
چھوڑ کر بستی کو بن کی اور ہم جائیں تو کیوں؟
... پہلا تو کنفیوز کرتا ہے کہ بن بمعنی جنگل یا بننے کا عمل؟ دوسرا بہتر ہے، لیکن الفاظ بدلنے سے شاید روانی بہتر بنائی جا سکے۔ 'جنگل کی طرف' پر بھی غور کرو۔

جذب کرکے بھی نہ ان کو نرم ہو پائے اگر
ہم پھر اس قلبِ حجر پر اشک ٹپکائیں تو کیوں؟
یا پھر ...
تند جوئے آب میں بھی نرم جو پڑتا نہیں
ایسے پتھر دل پر اپنے اشک ٹپکائیں تو کیوں؟
... مجھے پہلے مصرع کا پہلا اود دوسرے کا دوسرا متبادل بہتر لگ رہا ہے

سر جھکا کر بھی بھلا ہم کون سا جی پائیں گے
یا...
سر جھکا کر بھی ہم اپنا کتنے دن جی پائیں گے
چند لقموں کے لئے پھر ہاتھ پھیلائیں تو کیوں؟
... دوسرا متبادل بہتر ہے لیکن شعر ہی واضح نہیں، اسے القط نہ کر دیا جائے تو کیوں؟

دیدۂ دل سے حقیقت جو نظر آتی ہو صاف
یا پھر...
جو حقیقت دیدہِ دل سے نظر آتی ہو صاف
... دوسرا متبادل اچھا ہے
 

یاسر علی

محفلین
معزز اساتذۂ محفل و دیگر عزیزان گرامی، آداب!

ایک غزل بغرض اصلاح و تبصرہ پیش خدمت ہے. دراصل یہ زمین مجھے کچھ گنجلک سی محسوس ہوئی، اس لئے ضروری سمجھا کہ حتمی شکل دینے سے پہلے اساتذہ کے زیر نظر لائی جائے.
مرشدی و استاذی جناب الف عین صاحب، قبلہ جناب محمد خلیل الرحمٰن بھائی، قبلہ جناب ظہیراحمدظہیر بھائی اور سیدی سید عاطف علی بھائی سے توجہ کی خصوصی درخواست ہے. دیگر محفلین بھی اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کریں.

دعاگو،
راحلؔ.
...........................................................

دیدۂ اختر فشاں میں اشک اب آئیں تو کیوں؟
مرقدِ حسرت کو ہم شبنم سے نہلائیں تو کیوں؟

جب میسر ہے یہیں وحشت ترے جانے کے بعد
تیرے غم میں چھوڑ کر بستی کو بن جائیں تو کیوں؟
یا پھر...
چھوڑ کر بستی کو بن کی اور ہم جائیں تو کیوں؟

اب کہاں فاروقؓ سا کوئی جو ڈھو لائے اناج
مائیں پھر روتے ہوئے بچوں کو بہلائیں تو کیوں؟

اس کی خاطر، جو یہ آنکھیں ہی نہ پڑھ پایا کبھی
حالِ دل کو جامۂ الفاظ پہنائیں تو کیوں؟


جذب کرکے بھی نہ ان کو نرم ہو پائے اگر
ہم پھر اس قلبِ حجر پر اشک ٹپکائیں تو کیوں؟
یا پھر ...
تند جوئے آب میں بھی نرم جو پڑتا نہیں
ایسے پتھر دل پر اپنے اشک ٹپکائیں تو کیوں؟


سر جھکا کر بھی بھلا ہم کون سا جی پائیں گے
یا...
سر جھکا کر بھی ہم اپنا کتنے دن جی پائیں گے
چند لقموں کے لئے پھر ہاتھ پھیلائیں تو کیوں؟


روح فرسائی پر اب کیا خامہ فرسائی کریں
زخمِ بے مرہم کو ہم قرطاس پر لائیں تو کیوں؟

دیدۂ دل سے حقیقت جو نظر آتی ہو صاف
یا پھر...
جو حقیقت دیدہِ دل سے نظر آتی ہو صاف
بے حجاب اس کو کریں کیوں، پردہ اٹھوائیں تو کیوں؟

گھوم کر راحلؔ اسی منزل پہ جب آنا ہے، پھر
زندگی کے اسپِ بے پروا کو دوڑائیں تو کیوں؟
خوبصورت غزل ہے
 
بہت شکریہ استاد محترم، جزاک اللہ.

تیرے غم میں چھوڑ کر بستی کو بن جائیں تو کیوں؟
یا پھر...
چھوڑ کر بستی کو بن کی اور ہم جائیں تو کیوں؟
... پہلا تو کنفیوز کرتا ہے کہ بن بمعنی جنگل یا بننے کا عمل؟ دوسرا بہتر ہے، لیکن الفاظ بدلنے سے شاید روانی بہتر بنائی جا سکے۔ 'جنگل کی طرف' پر بھی غور کرو۔
چھوڑ کر بستی کو جنگل کی طرف جائیں تو کیوں
یا پھر ...
چھوڑ کر ہم بستی جنگل کی طرف جائیں تو کیوں

جذب کرکے بھی نہ ان کو نرم ہو پائے اگر
ہم پھر اس قلبِ حجر پر اشک ٹپکائیں تو کیوں؟
یا پھر ...
تند جوئے آب میں بھی نرم جو پڑتا نہیں
ایسے پتھر دل پر اپنے اشک ٹپکائیں تو کیوں؟
... مجھے پہلے مصرع کا پہلا اود دوسرے کا دوسرا متبادل بہتر لگ رہا ہے
یعنی یہ صورت ہو
جذب کرکے بھی نہ ان کو نرم ہو پائے اگر
ایسے پتھر دل پر اپنے اشک ٹپکائیں تو کیوں؟

سر جھکا کر بھی بھلا ہم کون سا جی پائیں گے
یا...
سر جھکا کر بھی ہم اپنا کتنے دن جی پائیں گے
چند لقموں کے لئے پھر ہاتھ پھیلائیں تو کیوں؟
... دوسرا متبادل بہتر ہے لیکن شعر ہی واضح نہیں، اسے القط نہ کر دیا جائے تو کیوں؟
یعنی ساقط؟
جی بہتر ہے، یا کوئی اور گرہ سوچتا ہوں.

ایک بار پھر تفصیلی تبصرے کے لئے آپ کا شکرگزار ہوں.

ارادت کیش،
راحل.
 
معزز اساتذۂ محفل و دیگر عزیزان گرامی، آداب!

ایک غزل بغرض اصلاح و تبصرہ پیش خدمت ہے. دراصل یہ زمین مجھے کچھ گنجلک سی محسوس ہوئی، اس لئے ضروری سمجھا کہ حتمی شکل دینے سے پہلے اساتذہ کے زیر نظر لائی جائے.
مرشدی و استاذی جناب الف عین صاحب، قبلہ جناب محمد خلیل الرحمٰن بھائی، قبلہ جناب ظہیراحمدظہیر بھائی اور سیدی سید عاطف علی بھائی سے توجہ کی خصوصی درخواست ہے. دیگر محفلین بھی اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کریں.

دعاگو،
راحلؔ.
...........................................................

دیدۂ اختر فشاں میں اشک اب آئیں تو کیوں؟
مرقدِ حسرت کو ہم شبنم سے نہلائیں تو کیوں؟

جب میسر ہے یہیں وحشت ترے جانے کے بعد
تیرے غم میں چھوڑ کر بستی کو بن جائیں تو کیوں؟
یا پھر...
چھوڑ کر بستی کو بن کی اور ہم جائیں تو کیوں؟

اب کہاں فاروقؓ سا کوئی جو ڈھو لائے اناج
مائیں پھر روتے ہوئے بچوں کو بہلائیں تو کیوں؟

اس کی خاطر، جو یہ آنکھیں ہی نہ پڑھ پایا کبھی
حالِ دل کو جامۂ الفاظ پہنائیں تو کیوں؟


جذب کرکے بھی نہ ان کو نرم ہو پائے اگر
ہم پھر اس قلبِ حجر پر اشک ٹپکائیں تو کیوں؟
یا پھر ...
تند جوئے آب میں بھی نرم جو پڑتا نہیں
ایسے پتھر دل پر اپنے اشک ٹپکائیں تو کیوں؟


سر جھکا کر بھی بھلا ہم کون سا جی پائیں گے
یا...
سر جھکا کر بھی ہم اپنا کتنے دن جی پائیں گے
چند لقموں کے لئے پھر ہاتھ پھیلائیں تو کیوں؟


روح فرسائی پر اب کیا خامہ فرسائی کریں
زخمِ بے مرہم کو ہم قرطاس پر لائیں تو کیوں؟

دیدۂ دل سے حقیقت جو نظر آتی ہو صاف
یا پھر...
جو حقیقت دیدہِ دل سے نظر آتی ہو صاف
بے حجاب اس کو کریں کیوں، پردہ اٹھوائیں تو کیوں؟

گھوم کر راحلؔ اسی منزل پہ جب آنا ہے، پھر
زندگی کے اسپِ بے پروا کو دوڑائیں تو کیوں؟

سلام عرض راحل بھائی
بہت خوب، بہت عمدہ
یقین کیجے، یہ فقیر اگر جاگردار ہوتا تو آپکو کیا کچھ عنایت کر دیتا۔
بہر وقت یہی لفظوں کا تحفہ ہے۔
"مجھے معلوم ہے اپنے سخن کی تنگ دامانی"
بدر القادری
 
سلام عرض راحل بھائی
بہت خوب، بہت عمدہ
یقین کیجے، یہ فقیر اگر جاگردار ہوتا تو آپکو کیا کچھ عنایت کر دیتا۔
بہر وقت یہی لفظوں کا تحفہ ہے۔
"مجھے معلوم ہے اپنے سخن کی تنگ دامانی"
بدر القادری
برادرم بدر، تسلیمات
میاں آپ کے فیاضانہ الفاظ ہی مجھے اتنا مقروض کر گئے ہیں کہ شکرگزاری کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں. اللہ آپ کو خوش رکھے اور جزائے خیر عطا فرمائے.

دعاگو،
راحل.
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اچھی غزل ہے راحل بھائی !
البتہ مطلع کے مصرع اول پر ہی رکنا پڑا ۔ شاعر اگر خود اپنی آنکھ کو دیدہء اختر فشاں کہے تو اس کا مطلب دیدہء اشک فشاں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ سو اس صورت میں مصرع بے معنی ہوجاتا ہے ۔ اس پر غور فرمائیے گا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دوسری بات یہ کہ قلبِ حجر کی ترکیب درست نہیں ہے ۔ یہ سمجھنا چاہئے کہ کسرۂ اضافت کے ساتھ ترکیب دو قسم کی ہوتی ہے ۔ ایک تو ترکیبِ اضافی جو ملکیت اور تعلق کو ظاہر کرتی ہے ۔ جیسے دستِ صبا ، غنچۂ دل یعنی صبا کا ہاتھ ، دل کا غنچہ ۔ دوسری قسم صفت بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے جیسے دستِ نازک ، غنچۂ رنگیں یعنی نازک ہاتھ ، رنگین غنچہ ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ پہلی قسم کی ترکیب میں مضاف الیہ اسم اور دوسری قسم میں مضاف الیہ صفت ہوتا ہے ۔ چنانچہ قلبِ حجر کا مطلب ہوگا پتھر کا دل ( جیسے قلب ِبشر کا مطلب بشر کا دل) ۔ ظاہر ہے کہ یہ آپ کا مدعا نہیں ۔ یہاں حجر کے بجائے سنگیں کا محل ہے ۔ قلبِ سنگیں یعنی "پتھر صفت" دل ۔
میری ناقص رائے میں فاروق والے شعر کو نکال دیں تو بہتر ہے ۔ شعر بھی معمولی ہے اور غزل کی مجموعی فضا میں فٹ نہیں ہورہا ۔ راحل بھائی، مقطع کو بھی ایک نظر اور دیکھ لیجئے ۔ " اِسی منزل" کی وضاحت ہوجائے تو شعر بہتر ہوسکتا ہے ۔

یہ دو اشعار اچھے ہیں ۔ بہت خوب ! اچھا کہا ہے !

اُس کی خاطر جو یہ آنکھیں ہی نہ پڑھ پایا کبھی
حالِ دل کو جامۂ الفاظ پہنائیں تو کیوں؟

روح فرسائی پر اب کیا خامہ فرسائی کریں
زخمِ بے مرہم کو ہم قرطاس پر لائیں تو کیوں؟
 
تفصیلی جواب کے لئے نہایت ممنون و متشکر ہوں ظہیر بھائی، آپ نے ہمیشہ کی طرح عمدہ نکات کی جانب توجہ دلائی ہے، جن کی روشنی میں ان شاء اللہ ضرور اعادہ کروں گا۔
بس ایک حکم سے سرتابی کی جرأت کررہا ہوں، فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ والے شعر کی بابت کہ یہاں معاملہ عقیدت کا ہے۔ آپ کا کہنا بجا ہے کہ شعر غزل کے مجموعی آہنگ سے میل نہیں کھاتا۔
تاہم اس بندۂ عاصی کو اللہ رب العزت نے اب تک ان عالی مقام شخصیات کی مکمل منقبت کہنے کا شرف نہیں بخشا ہے، اس لئے جو ایک آدھ شعر کبھی قلم برداشتہ ہوجاتا ہے، اسے تبرک سمجھ کر رکھ لیتا ہوں۔

مقطع کی بابت یہ عرض کرنا تھا کہ یہ ابہام میں نے دانستہ چھوڑا تھا کہ مفہوم کی کچھ تقطیر قاری کے لئے اٹھا رکھی جائے۔ کچھ متبادل گرہیں بیاض میں لکھی ہوئی ہیں، کوشش کرتا ہوں کہ فرصت میں دوبارہ فکر کرے دیکھوں۔

دعاگو،
راحلؔ
 

صابرہ امین

لائبریرین
معزز اساتذۂ محفل و دیگر عزیزان گرامی، آداب!

ایک غزل بغرض اصلاح و تبصرہ پیش خدمت ہے. دراصل یہ زمین مجھے کچھ گنجلک سی محسوس ہوئی، اس لئے ضروری سمجھا کہ حتمی شکل دینے سے پہلے اساتذہ کے زیر نظر لائی جائے.
مرشدی و استاذی جناب الف عین صاحب، قبلہ جناب محمد خلیل الرحمٰن بھائی، قبلہ جناب ظہیراحمدظہیر بھائی اور سیدی سید عاطف علی بھائی سے توجہ کی خصوصی درخواست ہے. دیگر محفلین بھی اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کریں.

دعاگو،
راحلؔ.
...........................................

جب میسر ہے یہیں وحشت ترے جانے کے بعد
تیرے غم میں چھوڑ کر بستی کو بن جائیں تو کیوں؟
یا پھر...
چھوڑ کر بستی کو بن کی اور ہم جائیں تو کیوں؟

کیا ہی خوبصورت خیالات ہیں ۔ ۔ ۔ ما شااللہ
ہم بدر القادری بھائ کی طرح اچھی باتیں تو نہیں کر سکتے یقیناََ ان سے متفق تو ہو سکتے ہیں ۔ ۔

اللہ آپ کے قلم میں خیرو برکت اور طاقت دے ۔ ۔ آمین

دیگر محفلین بھی اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کریں.
یہ پڑھنے کے بعد جسارت کر ڈالی ۔ ۔ اور استادِمحترم الف عین کی تجویز ''جنگل کی طرف' پر بھی غور کرو۔" پڑھ کر ذہن میں ایسے ہی یہ مصرعہِ ثانی آ گیا ۔ ۔ شائد کسی کام آ جائے ۔ ۔ ۔ہماری ناچیز رائے میں

جب میسر ہے یہیں وحشت ترے جانے کے بعد
اپنی بستی چھوڑ کر جنگل کو ہم جائیں تو کیوں

یا
جب میسر ہے یہیں وحشت ترے جانے کے بعد
اجڑی بستی چھوڑ کر جنگل کو ہم جائیں تو کیوں

یا
جب میسر ہے یہیں وحشت ترے جانے کے بعد
غم میں بستی چھوڑ کر جنگل کو ہم جائیں تو کیوں

گستاخی کی ہو تو معذرت ۔ ۔
 
Top