اشرف علی
محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔
غزل
رنگ ، خوشبو ، بَہار کی باتیں
چل کریں پھر سے پیار کی باتیں !
وہ شبِ وصل سننا چاہتا ہے
ہجر اور انتظار کی باتیں
اُف ! وہ عارض ، شگفتہ گل کی طرح
یاد ہیں گل عذار کی باتیں ؟
جام ، مینا ، شراب ، سب ہے یہاں
یار ! اب چھیڑ یار کی باتیں
بات پردے میں کیجیے صاحب !
ہیں یہ اک پردہ دار کی باتیں
ساتھ رہتے ہیں جسم و جاں کی طرح
میرے لب اور یار کی باتیں
آج وہ نیم باز آنکھوں سے
کر رہے ہیں خمار کی باتیں
ہجر کی رات کاٹنی ہے اگر
کیجیے زلفِ یار کی باتیں !
بات گلشن کی نامکمل ہے
ہوگی جب تک نہ خار کی باتیں
کبھی فرصت ملے تو سن لیجے !
اپنے اس بے قرار کی باتیں
جیتنے کا جو رکھتے ہیں جذبہ
وہ نہیں کرتے ہار کی باتیں
مرتے دَم تک کروں گا مَیں ، اشرف !
اپنے پروردگار کی باتیں
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔
غزل
رنگ ، خوشبو ، بَہار کی باتیں
چل کریں پھر سے پیار کی باتیں !
وہ شبِ وصل سننا چاہتا ہے
ہجر اور انتظار کی باتیں
اُف ! وہ عارض ، شگفتہ گل کی طرح
یاد ہیں گل عذار کی باتیں ؟
جام ، مینا ، شراب ، سب ہے یہاں
یار ! اب چھیڑ یار کی باتیں
بات پردے میں کیجیے صاحب !
ہیں یہ اک پردہ دار کی باتیں
ساتھ رہتے ہیں جسم و جاں کی طرح
میرے لب اور یار کی باتیں
آج وہ نیم باز آنکھوں سے
کر رہے ہیں خمار کی باتیں
ہجر کی رات کاٹنی ہے اگر
کیجیے زلفِ یار کی باتیں !
بات گلشن کی نامکمل ہے
ہوگی جب تک نہ خار کی باتیں
کبھی فرصت ملے تو سن لیجے !
اپنے اس بے قرار کی باتیں
جیتنے کا جو رکھتے ہیں جذبہ
وہ نہیں کرتے ہار کی باتیں
مرتے دَم تک کروں گا مَیں ، اشرف !
اپنے پروردگار کی باتیں