غزل برائے اصلاح : زندگانی سرائے عبرت ہے

استادِ محترم سر الف عین راحل بھائی و دیگر احباب سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی اصلاح فرمائی

نسلِ انساں کو جو فضیلت ہے
اس کی بنیاد بھی محبت ہے
_______________________
کھیل مت جان اس کو اے غافل
زندگانی سرائے عبرت ہے
_______________________
دل سے کینہ نکال دے واعظ
مے کشی تو خدا کی نعمت ہے
________________________
منتشر ہیں خیال دل بے چین
اب تو دن رات ایسی حالت ہے
_______________________
اب کہاں وہ مسرتیں چھوڑو
رنج و غم ہی ملے غنیمت ہے
________________________
بت کدے کو گئے صنم پرور
ہم کو اے یار تیری حاجت ہے

شکریہ۔۔
 
اچھی غزل ہے ماشاءاللہ!
بحر و اوزان کی تو کوئی غلطی نظر نہیں آتی، معنی و مفہوم کے اعتبار سے بھی مناسب ہے.

دل سے کینہ نکال دے واعظ
مے کشی تو خدا کی نعمت ہے
واقعی؟؟؟ :)
بھائی ویسے کوئی 30/40 سال کا پختہ عمر آدمی یہ بات کہتا تو حلق سے اتر جاتی، 19/20 سال کے نوجوان بھی مے کشی کی باتیں کریں، وہ بھی پاکستان کے ماحول میں تو شعر ذرا بناوٹی ہی لگتا ہے :)

کہاں وہ مسرتیں چھوڑو
رنج و غم ہی ملے غنیمت ہے
چھوڑو کی جگہ کوئی اور لفظ لے آئیں، جب مخاطب کی جانب شعر میں کوئی اشارہ نہیں تو یہ لفظ بھرتی کا معلوم ہوتا ہے.

بت کدے کو گئے صنم پرور
ہم کو اے یار تیری حاجت ہے
یار اتنا اچھا نہیں لگ رہا. کسی اور طرح کہنے کی کوشش کریں، مثلا
اور ہم کو تمہاری حاجت ہے... یا
ہم کو ہمدم تمہاری حاجت ہے

ایک صورت شعر کی یہ بھی ہوسکتی ہے
بت کدوں کو چلیں صنم پرور
ہم کو تو بس تمہاری حاجت ہے

دعاگو،
راحل.
 
واقعی؟؟؟ :)
بھائی ویسے کوئی 30/40 سال کا پختہ عمر آدمی یہ بات کہتا تو حلق سے اتر جاتی، 19/20 سال کے نوجوان بھی مے کشی کی باتیں کریں، وہ بھی پاکستان کے ماحول میں تو شعر ذرا بناوٹی ہی لگتا ہے :)
راحل بھائی مشورہ دینے کیلئے بہت شکریہ ویسے تو ابھی ہم شاعری کی ا ب سیکھ رہے ہیں آپ کی بات بجا ہے کہ شعر بناوٹی لگتا ہے لیکن ابھی ہم سیکھ رہے ہیں تو چلتا ہے
 
Top