غزل برائے اصلاح-سو بار قفس میں پھڑپھڑائے

منذر رضا

محفلین
السلام علیکم، اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے۔
الف عین
یاسر شاہ
سید عاطف علی
محمد خلیل الرحمٰن

سو بار قفس میں پھڑپھڑائے
آزاد مگر نہ ہونے پائے
میں روٹھ چکا ہوں زندگی سے
ہے کوئی جو مجھے منائے؟
آج اپنی جیب چاک کر لی
کب تک کوئی رازِ دل چھپائے
سن کے ترا نام دل سے نکلی
اک سرد سی آہ، اور ہائے
صیاد چمن جلا چکا،اب
کیوں کوئی قفس میں پھڑپھڑائے
جس کو رہِ عشق پر ہے چلنا
وہ پہلے خرد کا بت گرائے
میں شوق کا امتحان لوں گا
اس سے کہو نقشِ پا مٹائے
راہوں سے موت کی،ڈرے وہ
جس کو یہ زیست راس آئے
تیرے آنے تلک یگانہ
رو رو کے کہیں گزر نہ جائے
شکریہ!
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے غزل، آخری دو اشعار دیکھو
راہوں سے موت کی،ڈرے وہ
جس کو یہ زیست راس آئے
'راہوں سے' کے طویل کھنچے ہوئے الفاظ اچھے نہیں لگتے
راہوں سے جو موت..
کر دو

تیرے آنے تلک یگانہ
رو رو کے کہیں گزر نہ جائے
... دوسرے مصرع میں گزرنا، مرنے کے معنی میں استعمال ہو رہا ہے۔ راست مر جائے ہی استعمال کرنا بہتر ہے
رو رو کہ کہیں نہ مر ہی جائے
بہتر ہو گا
پہلے مصرع میں بھی ہر حرف کا طویل کھنچنا اور 'تلک' کا متروک لفظ اچھا نہیں لگتا اور وزن کا بھی مسئلہ لگتا ہے، اس کا کچھ متبادل سوچو
 

منذر رضا

محفلین
حضرت الف عین صاحب۔
متبادل دیکھیے گا

جاناں ترے آنے تک یگانہ
ڈر ہے رو رو کے مر نہ جائے

راہوں سے عدم کی خوف وہ کھائے
جس کو یہ حیات راس آئے
 

الف عین

لائبریرین
مقطع بہتر ہو گیا ہے
دوسرا شعر کو مطلع بنا دیا جائے تو کیسا رہے
راہوں سے عدم کی خوف کھائے
کے ساتھ
 
Top