غزل برائے اصلاح "شمع ہر موڑ پہ جلتی ہے جو میخانوں کی"

شمع ہر موڑ پہ جلتی ہے جو میخانوں کی
فوج تم کو یہاں مل جائے گی پروانوں کی

لوگ کہتے ہیں محبت کا جزیرہ جس کو
وہ تو بستی ہے بھٹکتے ہوئے مستانوں کی

کوچہِ یار میں بستے ہیں فقط حسن پرست
آؤ پھر سیر کریں اسکے صنم خانوں کی

جب کبھی ہم نے محبت کے فضائل لکھے
تو یہ عنوان رہا "منزلیں بیگانوں کی"

تم کو آسی کا نگر ٹوٹ کے یاد آئے گا
بات چھڑ جائے گی جب حسن کے پیمانوں کی

محمد ارتضیٰ آسی
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
۔۔۔
جب کبھی ہم نے محبت کے فضائل لکھے
تو یہ عنوان رہا "منزلیں بیگانوں کی"
۔۔۔ جب کبھی ہم نے محبت کے فضائل لکھے ۔۔۔ اس کا عنوان رہا منزلیں بے گانوں کی ۔۔۔

غور کیا جائے تو بے گانے یا انجان لوگ انجان منزلوں کی طرف ہی جاتے ہیں۔۔۔ (ہم ان کو جانتے نہیں ہیں، اس لیے وہ انجان ہیں، ان کی منزلیں بھی نامعلوم) ۔۔۔
آپ محبت کے فضائل لکھ رہے ہیں جو بے شمار ہیں تو اس کا یہ عنوان مناسب محسوس نہیں ہوتا ۔۔۔ کوئی اور عنوان سوچنا چاہئے ۔۔

تم کو آسی کا نگر ٹوٹ کے یاد آئے گا
بات چھڑ جائے گی جب حسن کے پیمانوں کی

۔۔۔۔حسن کی بجائے عشق کی بات چھڑتی تو خوب تھا کیونکہ حسن کے پیمانوں کی بات چھیڑنے سے شعر میں وہ اثر پیدا نہیں ہورہا جو کہ ایک مقطعے میں ہونا چاہئے ۔۔۔
 
Top