غزل برائے اصلاح - غالب کی ذمین میں

میں حقیقت ہوں، کسی خواب کی تعبیر نہیں
مجتہد بھی ہوں، فقط گوشۂ زنجیر نہیں

پوچھتا کیا ہے؟ مرے دل پہ تُو خود ڈال نظر
"لذّتِ سنگ بہ اندازۂ تقریر نہیں"

علم و حکمت کا ہے بازار میں اک ڈھیر لگا
بس زمانے میں کوئی صاحبِ تاثیر نہیں

شمعِ توحید لئے چل تُو بِلا خوف و خطر
صاحبِ جذب کبھی قابلِ تعزیر نہیں

مانتا ہوں کہ خطا کار ہوں، پر سوچ ذرا
اس پَرَکھ میں تو مرا کوئی بھی ہمشیر نہیں

مُتَعَجّل ہوں اگر، اس میں مرا کیا ہے قصور
میں بھی ہوں کُن سے بنا، وقت کی تعمیر نہیں

متعارف ہوا تُو مجھ سے بہ شکلِ مرشد
کون کہتا ہے ترے نور کی تصویر نہیں

حرف کی شرح کو گر چاہیے فرمانِ علی
سو وحی اتنی بھی تو سادہ سی تحریر نہیں

سُوق کا سودا نہیں علمِ لَدُنّا منصور
ہے یہ اعطائے خدا، اخذِ اساطیر نہیں

لفظ ”متعارف“ بوزن فعلاتن استعمال کیا - شک ہے کہ اس کا وزن شاید فعولن ہو ۔ اساتذہ اکرام اور احباب سے اصلاح درکار ہے

محترم الف عین
محترم سید عاطف علی
محترم فاتح
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر اساتذہ اکرام اور احباب
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
غالب کی زمین میں تو بڑی احتیاط کی ضرورت ہے، افسوس کہ مجھے ایسی بات محسوس نہیں ہوئی۔
میں حقیقت ہوں، کسی خواب کی تعبیر نہیں
مجتہد بھی ہوں، فقط گوشۂ زنجیر نہیں
///گوشۂ زنجیر کا یہاں محل؟

پوچھتا کیا ہے؟ مرے دل پہ تُو خود ڈال نظر
"لذّتِ سنگ بہ اندازۂ تقریر نہیں"
///دو لخت لگتا ہے۔
علم و حکمت کا ہے بازار میں اک ڈھیر لگا
بس زمانے میں کوئی صاحبِ تاثیر نہیں
///درست
شمعِ توحید لئے چل تُو بِلا خوف و خطر
صاحبِ جذب کبھی قابلِ تعزیر نہیں
÷÷ییہ بھی دو لخت!!!
مانتا ہوں کہ خطا کار ہوں، پر سوچ ذرا
اس پَرَکھ میں تو مرا کوئی بھی ہمشیر نہیں
÷÷÷ہمشیر؟ شاید ہمسر کہنا تھا جو قافیہ نہیں ہوتا۔
مُتَعَجّل ہوں اگر، اس میں مرا کیا ہے قصور
میں بھی ہوں کُن سے بنا، وقت کی تعمیر نہیں
÷÷÷ٹھیک۔
متعارف ہوا تُو مجھ سے بہ شکلِ مرشد
کون کہتا ہے ترے نور کی تصویر نہیں
÷÷÷یہ سمجھ نہیں سکا۔ شاید تصوف سے نا واقفیت کی وجہ سے۔ متعارف کا تلفظ بالکل درست ہے
حرف کی شرح کو گر چاہیے فرمانِ علی
سو وحی اتنی بھی تو سادہ سی تحریر نہیں
÷÷÷ وحی کا تلفظ غلچ ہے۔ درست تلفظ میں ’ی‘ ساکن ہے۔
سُوق کا سودا نہیں علمِ لَدُنّا منصور
ہے یہ اعطائے خدا، اخذِ اساطیر نہیں
÷÷÷عطائے خدا ہا اعطائے خدا؟
 
Top