غزل برائے اصلاح "فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن"

شیخ صاحب کی تو دنیا ہی بدل دی اس نے
ارے رندو یہ تو ساقی کی صدا لگتی ہے

بات یہ سچ ہے مگر کیسے کہوں میں اللہ
ساقیا مے تو مجھے آبِ بقا لگتی ہے

چشمِ ساقی کی عنایت نہیں ہے برسوں سے
یار یہ اپنے گناہوں کی سزا لگتی ہے

ہو گئے ہم سے خفا بادہ و ساغر ساقی
باخدا یہ ہمیں اپنی ہی خطا لگتی ہے

شہرِ ساقی ہے شرابِ غمِ جاناں بھی ہے
مجھ گنہگار پہ مالک کی عطا لگتی ہے

میکدے میں جو چلے آئے جنابِ واعظ
کہتے پھرتے ہیں یہ جنّت کی ہوا لگتی ہے​
 
آخری تدوین:
میرا قیاس ہے کہ یہاں فضا بہتر رہے گا.
رندو
ارے کو دو حرفی باندھنا اچھا نہیں.
چشمِ ساقی کی عنایت نہیں ہے برسوں سے
اس مصرع کی بندش کافی سست محسوس ہو رہی ہے.
 

الف عین

لائبریرین
ہر شعر میں ساقی کا ذکر ضروری ہے کیا؟
"نہیں ہے" کو "ن ہ ہے" (ابھی موبائل پر ہوں، اس لیے ہر حرف پر زبر نہیں لگا سکتا۔) آج کل اکثر باندھا جاتا ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ روانی متاثر ہوتی ہے۔
یوں کہیں تو
اس کی آنکھوں کی عنایت ہی نہیں برسوں سے
تو کیسا رہے۔ یا ساقی کی ضرورت ہو ہی تو چشمِ ساقی بھی کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ "ارے رندو" کو "رند نے خامہ" بھی کیا جا سکتا ہے۔
باخدا کی جگہ بخدا بھی آ سکتا ہے۔
جنت کی ہوا بھی میرے خیال میں درست ہی ہے۔
شہر ساقی والا مصرع بھی "ہے" پر ختم ہوتا ہے جو ردیف بھی ہے۔ اسے بدل دیا جائے تو اچھا ہے
 
Top