زبیر صدیقی
محفلین
السلام علیکم : ایک نئی غزل کے ساتھ حاضر ہوں۔ اپنے اساتذہ سے درخواست ہے کہ اس پر رہنمائی فرمائیں۔
الف عین سید عاطف علی محمد خلیل الرحمٰن محمّد احسن سمیع :راحل:
مطمئن اس پہ کیوں فلک بھی رہے
بندگی بھی ہو اور شک بھی رہے
فاصلے طے نہ ہوں گے عشق میں یوں
اُٹھ رہے ہوں قدم، جھجھک بھی رہے
آئینہ کہہ رہا ہے روز یہی
عکس میں کچھ تیری جھلک بھی رہے
صرف جینا ہی کب ہمیں تھا، مگر
صرف جیتے ہی آج تک بھی رہے
یہی جانا کہ جانا کچھ بھی نہیں
اور یہی جاننے میں تھک بھی رہے
ڈھونڈتے پھر رہے تھے وقت کو ہم
ایک اِک کر کے دن سرک بھی رہے
عمر لگتی ہے دل سمجھنے میں
عشق ہو تو یہ یک بیک بھی رہے
والسلام
الف عین سید عاطف علی محمد خلیل الرحمٰن محمّد احسن سمیع :راحل:
مطمئن اس پہ کیوں فلک بھی رہے
بندگی بھی ہو اور شک بھی رہے
فاصلے طے نہ ہوں گے عشق میں یوں
اُٹھ رہے ہوں قدم، جھجھک بھی رہے
آئینہ کہہ رہا ہے روز یہی
عکس میں کچھ تیری جھلک بھی رہے
صرف جینا ہی کب ہمیں تھا، مگر
صرف جیتے ہی آج تک بھی رہے
یہی جانا کہ جانا کچھ بھی نہیں
اور یہی جاننے میں تھک بھی رہے
ڈھونڈتے پھر رہے تھے وقت کو ہم
ایک اِک کر کے دن سرک بھی رہے
عمر لگتی ہے دل سمجھنے میں
عشق ہو تو یہ یک بیک بھی رہے
والسلام