فرحان محمد خان
محفلین
مرے یارو میں جب سے اپنے اندر دیکھ سکتا ہوں
تبھی سے بند آنکھوں سے سمندر دیکھ سکتا ہوں
ہے ایسی خاک سے نسبت جہاں اقبال رہتے تھے
تو اے واعظ میں بھی خوابِ قلندر دیکھ سکتا ہوں
ہیں میرے ساتھ ماں کی جو دعائیں بھی مرے مولا
تو نے کیا لکھا ہے میرا مقدر دیکھ سکتا ہوں
ادھوری ہر کہانی ہے مجھے جو یاد آتی ہے
مگر وہ کون تھا میں جو سکندر دیکھ سکتا ہوں
اگر وہ شہر میں آئے عجب سی خوشبو ہوتی ہے
وہ ایسی خوشبو ہے جو میں برابر دیکھ سکتا ہوں
مجھے اب قتل کی دمکی نہ دی جائے کہ میں وہ ہوں
جو اپنے قتل کا گستاخؔ منظر دیکھ سکتا ہوں
تبھی سے بند آنکھوں سے سمندر دیکھ سکتا ہوں
ہے ایسی خاک سے نسبت جہاں اقبال رہتے تھے
تو اے واعظ میں بھی خوابِ قلندر دیکھ سکتا ہوں
ہیں میرے ساتھ ماں کی جو دعائیں بھی مرے مولا
تو نے کیا لکھا ہے میرا مقدر دیکھ سکتا ہوں
ادھوری ہر کہانی ہے مجھے جو یاد آتی ہے
مگر وہ کون تھا میں جو سکندر دیکھ سکتا ہوں
اگر وہ شہر میں آئے عجب سی خوشبو ہوتی ہے
وہ ایسی خوشبو ہے جو میں برابر دیکھ سکتا ہوں
مجھے اب قتل کی دمکی نہ دی جائے کہ میں وہ ہوں
جو اپنے قتل کا گستاخؔ منظر دیکھ سکتا ہوں