غزل برائے اصلاح نشے میں جبہ و پگڑی بھی وار آئے ہیں

نشے میں جبہ و پگڑی بھی وار آئے ہیں
تمھاری بزم سے واعظ بھی خوار آئے ہیں

ہے ان کے سیر چمن کی خبر تو گلشن میں
گلوں پہ دیکھو تو کیسے نکھار آئے ہیں

وہ بزم رنگ بھلانے کو تو بھلا دیں ہم
مگر وہ چہرہ جو دل میں اتار آئے ہیں

ہے ان کے در پہ ہمارا تو آنا جانا پر
زہے نصیب کہ وہ اب کی بار آئے ہیں

گو ان سے دور رہے ہم بھی مصلحت کے سبب
ہمیں وہ یاد مگر بے شمار آئے ہیں

دیار عشق میں تیری بساط ہی کیا ہے
تری طرح کے یہاں پر ہزار آئے ہیں

سنا دی ہم نے انھیں دل کی بات محفل میں
کسی جنم کا تھا بدلہ اتار آئے ہیں

جنھوں نے تجھ کو رلانے کے خواب دیکھے تھے
وہ شان در پہ ترے اشکبار آئے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں تین اغلاط ہیں
نشہ کا درست تلفظ نشّہ، تشدید کے ساتھ ہے
جبہ و پگڑی... پگڑی ہندی لفظ ہے اس کے ساتھ فارسی اضافت نہیں لگ سکتی
تیسرے، ایطا کا سقم ہے، دونوں قوافی میں 'وار' مشترک ہے جب کہ صرف 'ار' ہونا تھا

دوسرے شعر میں نکھار جیسے Abstract nown؛ کی جمع بنانا غلط ہے، نکھار آتا ہے درست ہو گا جو زمین میں نہیں

باقی اشعار درست ہیں
 
استاد محترم
خاکسار کے ناقص خیال میں خوار کا تلفظ خار ہے۔ اسلیے اسے قافیہ بنایا تھا۔
اور آنجناب کی نشاندہی کے مطابق مطلع اب یوں بنایا ہے

سرور و مستی میں جبہ بھی وار آئے ہیں
تمھاری بزم سے واعظ بھی خوار آئے ہیں

اگر خوار ناقابل قبول ہے تو ازراہ شفقت دوبارہ اشارہ فرما دیں۔
الف عین
 
Top