غزل برائے اصلاح -نکلا نہیں حصار سے اُن کے تمام عمر ۔ از محمد اظہر نذیر

بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن

نکلا نہیں حصار سے اُن کے تمام عمر
دِل جاں، نظر پیار سے اُن کے تمام عمر

اک لطفِ خود سپردگی سے ہوئے ہم بھی آشنا
صحبت نگاہ، خمار سے اُن کے تمام عمر

کچھ بات تھی ہی ایسی کہ ہوتے رہے شکار
گجری محک، سنگھار سے اُن کے تمام عمر

جب سے ملے تو دیکھو گرفتار ہی رہے
نیکی ادب، وقار سے اُن کے تمام عمر

اللہ رے زندگی کو ہمیں نے سجا لیا
اظہر ہنر، شعار سے اُن کے تمام عمر​

اساتذہ کرام،
آپ کی خدمت میں ایک اور کوشش کے ساتھ حاضر ہوں- کوئی نئی بحر پڑھنے کے بعد لکھنے کو جی کرتا ہے، کیا کاروں؟
اک نظرِ عنایت کیجیے
والسلام
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
پوری غزل میں کم از کم ہر دوسرے مصرع میں کچھ الفاظ ہیں، جن سے جملہ مکمل نہیں ہوتا، اور بے معنی ہیں۔ ایک ایک کر کے سمجھاتا ہوں۔

نکلا نہیں حصار سے اُن کے تمام عمر
دِل جاں، نظر پیار سے اُن کے تمام عمر

پہلا مصرع درست
’پیار‘ بھی صرف ’پار‘ تقطیع کیا جاتا ہے۔ اس لئے غلط ہے۔ پہلا مصرع تو با معنی اور عمدہ ہے، حصار سے باہر نکلنا مشکل ہے، یہ مانا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کے دل سے، ان کے/کی جاں سے، ان کے/کی نظر سے اور ان کے پیار سے نکلنا؟ شاعر کو کیا پتہ کہ محبوب کے دل سے اور دوسری اشیاء سے آُ نکلے یا آپ تھے ہی نہیں؟ جنس کے صیغے کی غلطی بھی ہے۔ ردیف ’ان کے‘ کی مناسبت سے ہر شے مذکر آنی چاہئے تھی۔ یہاں دل، پیار مذکر ہیں، جاں اور نظر مؤنث۔

اک لطفِ خود سپردگی سے ہوئے ہم بھی آشنا
صحبت نگاہ، خمار سے اُن کے تمام عمر
پہلا مصرع خارج از بحر، محض اک لطفِ ’خود سپر‘ سے ہوئے ہم بھی آشنا۔ بحر میں آتا ہے،
دوسرے مصرع میں وہی مسئلہ ہے۔ تینوں اسماء مذکر نہیں، مؤنث ہیں جب کہ ردیف مذکر ہے۔

کچھ بات تھی ہی ایسی کہ ہوتے رہے شکار
گجری محک، سنگھار سے اُن کے تمام عمر
پہلا مصرع درست
دوسرا مصرع سمجھ میں نہیں آیا، محک کو ’مہک‘ مان لیا جا سکتا ہے، لیکن ’گجری‘ کیا ہے؟ مہک مؤنث ہے، سنگھار مذکر ہے، گجری کا مجھے نہیں معلوم۔

جب سے ملے تو دیکھو گرفتار ہی رہے
نیکی ادب، وقار سے اُن کے تمام عمر

پہلا مصرع یوں بہتر ہو سکتا ہے
جب سے ملے ہیں دیکھو گرفتار ہی رہے
دوسرے میں نیکی مؤنث ہے، اس کے علاوہ گرفتارادب یا وقار ’میں‘ ہوا جاتا ہے، ’کے‘ نہیں۔
یوں ہو سکتا ہے
نیکی ادب، وقار سے اُن میں تمام عمر

اللہ رے زندگی کو ہمیں نے سجا لیا
اظہر ہنر، شعار سے اُن کے تمام عمر

اللہ رے، اور ’ہمیں‘ بھرتی کا ہے،
بے معنی شعر ہے، ان کے ہنر اور شعار سے اپنی زندگی کو سجانا سمجھ میں نہیں آیا۔
اس کے علاوہ ’تمام عمر‘ کی ردیف بھی اکثر فٹ نہیں ہوتی۔
 
اُستادِ محترم،
ایک سوال اگر گستاخی نہ سمجھیں تو، وہ یہ کہ اگر جملہ میں بلفرض دو مونث اجزا آئیں اور تیسرا مذکر ہو تو کیا جملے کا اختتام تذکیری نہ ہو گا؟ یعنی قطع نظر اس کے کہ گزشتہ حروف تانیثی تھے، میری کم علمی کو درگذر فرما کہ از راہِ عنایت جواب دیجیے گا
ممنون و سکر گزار
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
او ہو، تم نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ذرا غور کرنے دو کہ مجھے غلط کیوں لگا۔ وارث، کیا خیال ہے تمہارا؟
 
پوری غزل میں کم از کم ہر دوسرے مصرع میں کچھ الفاظ ہیں، جن سے جملہ مکمل نہیں ہوتا، اور بے معنی ہیں۔ ایک ایک کر کے سمجھاتا ہوں۔

نکلا نہیں حصار سے اُن کے تمام عمر
دِل جاں، نظر پیار سے اُن کے تمام عمر

پہلا مصرع درست
’پیار‘ بھی صرف ’پار‘ تقطیع کیا جاتا ہے۔ اس لئے غلط ہے۔ پہلا مصرع تو با معنی اور عمدہ ہے، حصار سے باہر نکلنا مشکل ہے، یہ مانا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کے دل سے، ان کے/کی جاں سے، ان کے/کی نظر سے اور ان کے پیار سے نکلنا؟ شاعر کو کیا پتہ کہ محبوب کے دل سے اور دوسری اشیاء سے آُ نکلے یا آپ تھے ہی نہیں؟ جنس کے صیغے کی غلطی بھی ہے۔ ردیف ’ان کے‘ کی مناسبت سے ہر شے مذکر آنی چاہئے تھی۔ یہاں دل، پیار مذکر ہیں، جاں اور نظر مؤنث۔
محض کچھ سیکھنے کی خاطر دخل در معقولات کر رہا ہوں۔ میرے خیال میں دوسرا مصرع معنویت کے اعتبار سے بھی ٹھیک لگتا ہے کیونکہ شاعر کہہ رہا ہے کہ نکلے نہیں حصار سے انکے تمام عمر۔ ۔اور پھر دوسرے مصرعے میں اس حصار کی وضاحت ہے یعنی انکے پیار کا حصار۔ اور اس پیار کا مخرج و منشاء شاعر کا اپنا ہی دل ہے محبوب کا نہیں ۔ لہٰذا شاعر اپنی ہی قلبی کیفیت کا اظہار کررہا ہے کہ انکے پیار کے حصار سے دل و جاں اور نظر باہر نہیں نکل پائے تمام عمر۔:)

اک خود سپردگی سے ہوئے ہم بھی آشنا
صحبت، نگہ، خمار سے انکے تمام عمر۔ ۔ ۔


کچھ بات تھی ہی ایسی کہ ہوتے رہے شکار
گجروں بھرے سنگھار سے اُن کے تمام عمر


جب سے ملےہیں دیکھو گرفتار ہی رہے
اک شان اور وقار سے اُن کے تمام عمر
 

الف عین

لائبریرین
میں اپنی بات سے رجوع کرتا ہوں، اصلاح کے جوش میں کچھ حد سے بڑھ گیا شاید!
لیکن پھر بھی اکثر اعتراضات اب بھی باقی ہیں، غزنوی کی وضاحت کے باوجود۔ اب یہ اظہر ہی بتائیں کہ ان کا مطلب کیا تھا، یعنی
دِل جاں، نظر پیار سے اُن کے تمام عمر
میں چاروں اشیاء کے حصار کی بات ہے ، بشمول پیار۔ جو غلط باندھا گیا ہے، یا جیسا کہ غزنوی کا خیال ہے کہ پیار کا حصار، اس بات کو اس سے تقویت ملتی ہے کہ اظہر نے نظر اور پیار کے درمیان کوما نہیں لکھا ہے، اب یہ تحریر کی غلطی ہے یا شعوری کوشش۔ اعتراض کی گنجائش اس لئے اب بھی ہے کہ پہلے مصرع میں ’نکلا‘ ہے، جس سے شک ہوتا ہے کہ اس کی‌ضمیر ’میں‘ ہے۔ یعنی میں ہی ان کے۔۔۔۔۔کے حصار سے نہیں نکل سکا۔
مکمل اب پھر کاپی پیسٹ کر کے ترمیم کر کے کوشش کرتا ہوں۔

اک لطفِ خود سپردگی سے ہوئے ہم بھی آشنا
صحبت نگاہ، خمار سے اُن کے تمام عمر
پہلا مصرع خارج از بحر، محض اک لطفِ ’خود سپر‘ سے ہوئے ہم بھی آشنا۔ بحر میں آتا ہے،
دوسرے مصرع میں نگہ وزن میں آتا ہے، مکمل ’نگاہ‘ نہیں۔(ابھی دیکھا کہ غزنوی نے بھی یہی اصلاح کی ہے۔(لیکن اب اس اعتراض کو نکال دیا جائے تو اب مزید غور کرنا پڑا۔ پہلے مصرع میں بات مکمل ہو چکی کہ آشا ہوئے خود سپردگی سے، لیکن دوسرا مصرع نا مکمل ہو جاتا ہے۔ اس میں نکلنے یا داخل ہونے کی کوئی بات نہیں۔

کچھ بات تھی ہی ایسی کہ ہوتے رہے شکار
گجری محک، سنگھار سے اُن کے تمام عمر
پہلا مصرع درست۔ غزنوی کی اصلاح کے باوجوددوسرا مصرع میری فہم سے باہر ہے، گجروں بھرا سنگھار‘ کی ترکیب بھی انوکھی ہے۔ اگر اظہر کا مطلب یہی ہو تب بھی۔ بہتر ہو کہ اس کو املا کی غلطی مان کر یوں کر دیا جائے۔
گجرا، مہک، سنگھار۔۔۔۔
اظہر کو وضاحت کرنی پڑے گی کہ کیا وہی مطلب ہے جو غزنوی سمجھے ہیں۔

جب سے ملے تو دیکھو گرفتار ہی رہے
نیکی ادب، وقار سے اُن کے تمام عمر
یا غزنوی کی اصلاح کے بعد

جب سے ملےہیں دیکھو گرفتار ہی رہے
اک شان اور وقار سے اُن کے تمام عمر
میں ’سے‘ محل نظر ہے، واقر وغیرہ ’سے‘ گرفتار نہیں ہوا جاتا۔

اللہ رے زندگی کو ہمیں نے سجا لیا
اظہر ہنر، شعار سے اُن کے تمام عمر

اللہ رے، اور ’ہمیں‘ بھرتی کا ہے،
 
میں اپنی بات سے رجوع کرتا ہوں، اصلاح کے جوش میں کچھ حد سے بڑھ گیا شاید!
لیکن پھر بھی اکثر اعتراضات اب بھی باقی ہیں، غزنوی کی وضاحت کے باوجود۔ اب یہ اظہر ہی بتائیں کہ ان کا مطلب کیا تھا، یعنی
دِل جاں، نظر پیار سے اُن کے تمام عمر
میں چاروں اشیاء کے حصار کی بات ہے ، بشمول پیار۔ جو غلط باندھا گیا ہے، یا جیسا کہ غزنوی کا خیال ہے کہ پیار کا حصار، اس بات کو اس سے تقویت ملتی ہے کہ اظہر نے نظر اور پیار کے درمیان کوما نہیں لکھا ہے، اب یہ تحریر کی غلطی ہے یا شعوری کوشش۔ اعتراض کی گنجائش اس لئے اب بھی ہے کہ پہلے مصرع میں ’نکلا‘ ہے، جس سے شک ہوتا ہے کہ اس کی‌ضمیر ’میں‘ ہے۔ یعنی میں ہی ان کے۔۔۔۔۔کے حصار سے نہیں نکل سکا۔
مکمل اب پھر کاپی پیسٹ کر کے ترمیم کر کے کوشش کرتا ہوں۔

محترم غزنوی صاحب کا تجزیہ درست ہے جناب مجھ سے کوما بھول گیا

اک لطفِ خود سپردگی سے ہوئے ہم بھی آشنا
صحبت نگاہ، خمار سے اُن کے تمام عمر
پہلا مصرع خارج از بحر، محض اک لطفِ ’خود سپر‘ سے ہوئے ہم بھی آشنا۔ بحر میں آتا ہے،
دوسرے مصرع میں نگہ وزن میں آتا ہے، مکمل ’نگاہ‘ نہیں۔(ابھی دیکھا کہ غزنوی نے بھی یہی اصلاح کی ہے۔(لیکن اب اس اعتراض کو نکال دیا جائے تو اب مزید غور کرنا پڑا۔ پہلے مصرع میں بات مکمل ہو چکی کہ آشا ہوئے خود سپردگی سے، لیکن دوسرا مصرع نا مکمل ہو جاتا ہے۔ اس میں نکلنے یا داخل ہونے کی کوئی بات نہیں۔
بجا فرمایا مصرع خارج از بحر ہے میں دوبارہ کوشش کرتا ہوں

کچھ بات تھی ہی ایسی کہ ہوتے رہے شکار
گجری محک، سنگھار سے اُن کے تمام عمر
پہلا مصرع درست۔ غزنوی کی اصلاح کے باوجوددوسرا مصرع میری فہم سے باہر ہے، گجروں بھرا سنگھار‘ کی ترکیب بھی انوکھی ہے۔ اگر اظہر کا مطلب یہی ہو تب بھی۔ بہتر ہو کہ اس کو املا کی غلطی مان کر یوں کر دیا جائے۔
گجرا، مہک، سنگھار۔۔۔۔
اظہر کو وضاحت کرنی پڑے گی کہ کیا وہی مطلب ہے جو غزنوی سمجھے ہیں۔
گجری لغت میں بمعنیٰ ایک کلائی میں پہنے جانے والے کڑے کے طور پر آیا ہے، آپ کا حکم سر آنکھوں پر، تبدیلی کر دی گئی

جب سے ملے تو دیکھو گرفتار ہی رہے
نیکی ادب، وقار سے اُن کے تمام عمر
یا غزنوی کی اصلاح کے بعد

جب سے ملےہیں دیکھو گرفتار ہی رہے
اک شان اور وقار سے اُن کے تمام عمر
میں ’سے‘ محل نظر ہے، واقر وغیرہ ’سے‘ گرفتار نہیں ہوا جاتا۔
جی اسے بھی کوشش کرتا ہوں تبدیل کرنے کی

اللہ رے زندگی کو ہمیں نے سجا لیا
اظہر ہنر، شعار سے اُن کے تمام عمر

اللہ رے، اور ’ہمیں‘ بھرتی کا ہے،
بہت بہتر، تبدیل کیے دیتا ہوں

نکلا نہیں حصار سے اُن کے تمام عمر
دِل، جاں، نظر، نکھار سے اُن کے تمام عمر

اک لطفِ خود سپرسے ہوئے ہم بھی آشنا
صحبت نگہ، خمار سے اُن کے تمام عمر

کچھ بات تھی ہی ایسی کہ ہوتے رہے شکار
گجرا،محک، نگار سے اُن کے تمام عمر

جب سے ملے تو دیکھو گرفتار ہی رہے
زلفوں کے ہر سنگھار سے اُن کے تمام عمر

اب جو بھی ہو سو ہو کہ ہے ہم نے سجا لیا
اظہر ہنر، شعار سے اُن کے تمام عمر

محترم اُستاد جی،
اب دیکیے شائد کچھ بہتری آئی ہو، ذاتی طور پہ مجھےئ محترم محمود صاحب کی تجاویز پسند آئیں
بہت شکریہ
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
نکلا نہیں حصار سے اُن کے تمام عمر
دِل، جاں، نظر، نکھار سے اُن کے تمام عمر
یہاں تو تم نے کوما لگا دیا ہے، تو جو مطلب اس کا محمود غزنوی نے نکالا تھا، وہ باقی نہیں رہا۔ ’ان کے دل، جاں ۔ نظر اور نکھار سے کوئی کس طرح نکل سکتا ہے؟

اک لطفِ خود سپرسے ہوئے ہم بھی آشنا
صحبت نگہ، خمار سے اُن کے تمام عمر
وہ تو میں نے مثال کے لئے کہا تھا کہ سپردگی پورا نہیں آتا، محض ’سپر‘ آتا ہے، کیا تم اس کو ہی اصلاح سمجھ بیٹھے تھے؟

کچھ بات تھی ہی ایسی کہ ہوتے رہے شکار
گجرا،محک، نگار سے اُن کے تمام عمر
’شکار‘ کا لفظ ہے تو اس کی مناسبت سے دوسرے مصرع میں کسی لفظ/الفاظ کا محل تھا، گجرا ، مہک (محک نہیں(، اور ساتھ ساتھ ’نگار‘ ’کے‘ شکار کس طرح ہو سکتے ہو؟ یوں ہی کچھ بہتر تھا
گجرے، مہک سنگھار کے ان کے تمام عمر۔۔۔
گجرے کا شکار محاورہ ہے، ’گجرا کا ‘ نہیں، سنگھار اور مہک کے ساتھ درست ہے۔

جب سے ملے تو دیکھو گرفتار ہی رہے
زلفوں کے ہر سنگھار سے اُن کے تمام عمر
یہ کہہ چکا ہوں کہ ’گرفتار‘ لفظ استعمال کرنا ہے تو اس کے ساتھ محاورہ ’کے‘ ہوتا ہے، ’سے‘ نہیں۔ اس شعر میں بھرتی کے الفاظ خود ہی پہچاننے کی کوشش کرو۔

اب جو بھی ہو سو ہو کہ ہے ہم نے سجا لیا
اظہر ہنر، شعار سے اُن کے تمام عمر
’ہے ہم نے‘ سے تو ’ہمیں‘ بہتر تھا۔ لیکن کیا سجا لیا؟ اس کا جواب نہیں ہے۔ میں نے یہ بات اس وقت اس لئے نہیں لکھی تھی کہ شاید بھرتی کے الفاظ نکال کر کچھ دوسرا شعر کہو تو پھر معانی کا سوچا جائے۔ یہاں ہنر کے ساتھ شعار بھی رست نہیں ہوتا، یہ دونوں الگ الگ قسم کے الفاظ ہیں، ایک ہی نوع کے نہیں۔
 
نکلا نہیں حصار سے اُن کے تمام عمر
دِل، جاں، نظر، نکھار سے اُن کے تمام عمر
یہاں تو تم نے کوما لگا دیا ہے، تو جو مطلب اس کا محمود غزنوی نے نکالا تھا، وہ باقی نہیں رہا۔ ’ان کے دل، جاں ۔ نظر اور نکھار سے کوئی کس طرح نکل سکتا ہے؟
جی اُستاد جی مطلب بلا شک وہی تھا جو غزنوی صاحب نے اخز کیا تھا- اجازت دیجیے کہ پیار کی جگہ وہاں وزن پورا کرنے کے لیے نکھار استعمال کر لوں

اک لطفِ خود سپرسے ہوئے ہم بھی آشنا
صحبت نگہ، خمار سے اُن کے تمام عمر
وہ تو میں نے مثال کے لئے کہا تھا کہ سپردگی پورا نہیں آتا، محض ’سپر‘ آتا ہے، کیا تم اس کو ہی اصلاح سمجھ بیٹھے تھے؟
جی درست فرمایا میں یہی سمجھا تھا، ٹھیک کیے دیتا ہوں

کچھ بات تھی ہی ایسی کہ ہوتے رہے شکار
گجرا،محک، نگار سے اُن کے تمام عمر
’شکار‘ کا لفظ ہے تو اس کی مناسبت سے دوسرے مصرع میں کسی لفظ/الفاظ کا محل تھا، گجرا ، مہک (محک نہیں(، اور ساتھ ساتھ ’نگار‘ ’کے‘ شکار کس طرح ہو سکتے ہو؟ یوں ہی کچھ بہتر تھا
گجرے، مہک سنگھار کے ان کے تمام عمر۔۔۔
گجرے کا شکار محاورہ ہے، ’گجرا کا ‘ نہیں، سنگھار اور مہک کے ساتھ درست ہے۔
جی بہت بہتر

جب سے ملے تو دیکھو گرفتار ہی رہے
زلفوں کے ہر سنگھار سے اُن کے تمام عمر
یہ کہہ چکا ہوں کہ ’گرفتار‘ لفظ استعمال کرنا ہے تو اس کے ساتھ محاورہ ’کے‘ ہوتا ہے، ’سے‘ نہیں۔ اس شعر میں بھرتی کے الفاظ خود ہی پہچاننے کی کوشش کرو۔
جی کوشش کرتا ہوں

اب جو بھی ہو سو ہو کہ ہے ہم نے سجا لیا
اظہر ہنر، شعار سے اُن کے تمام عمر
’ہے ہم نے‘ سے تو ’ہمیں‘ بہتر تھا۔ لیکن کیا سجا لیا؟ اس کا جواب نہیں ہے۔ میں نے یہ بات اس وقت اس لئے نہیں لکھی تھی کہ شاید بھرتی کے الفاظ نکال کر کچھ دوسرا شعر کہو تو پھر معانی کا سوچا جائے۔ یہاں ہنر کے ساتھ شعار بھی رست نہیں ہوتا، یہ دونوں الگ الگ قسم کے الفاظ ہیں، ایک ہی نوع کے نہیں۔
جی میں شعر تبدیل کیے دیتا ہوں


نکلا نہیں حصار سے اُن کے تمام عمر
دِل جاں، نظر نکھار سے اُن کے تمام عمر

اک خود سپردگی سے ہوئے ہم بھی آشنا
صحبت، نگہ، خمار سے انکے تمام عمر

کچھ بات تھی ہی ایسی کہ ہوتے رہے شکار
گجرے، مہک سنگھار سے ان کے تمام عمر

جب سے ملے تو دیکھو گرفتار ہی رہے
ہر نقش ہر نگار سے اُن کے تمام عمر

ممکن نہیں کسی کی تمنّا فرار ہو
اظہر کبھی قرار سے اُن کے تمام عمر
اُستادِ محترم،
ملاحظہ کیجیے
ممنون
اظہر
 

مغزل

محفلین
ہراااا۔۔۔ یہ ہوئی نا بات ۔۔ شکریہ بابا جانی یقیناً آپ نے ہی مدعو کیا ہو گا۔ شکراً شکراً
 

الف عین

لائبریرین
ہہ وارث کی کرامات ہے محمود۔ لیکن اب تک تو آسی صاحب نے ثبوت نہیں دیا اپنی مستقل موجودگی کا۔
 
Top