محمد حفیظ الرحمٰن
محفلین
غزل
از: محمد حفیظ الرحمٰن
وقت جو بیت گیا اس کو صدا کیا دینا
بجھ چکی آگ تو پھر اس کو ہوا کیا دینا
جس کا بالکل بھی نہ ہو لوٹ کے آنے کا خیال
پھر اسے لوٹ کے آنے کی دعا کیا دینا
فاصلے لاکھ سہی، دل میں تو بستا ہے وہی
اتنے نزدیک سے آواز بھلا کیا دینا
جرم ثابت ہو، گواہی بھی ہو، لیکن پھر بھی
سر جھکائے وہ کھڑا ہو تو سزا کیا دینا
زندگی کی نہیں اب جس میں رمق بھی باقی
میری جاں، اب اسے دامن کی ہوا کیا دینا
کھوج میں جس کی لٹے لوگ نجانے کتنے
پھر کسی کو اسی منزل کا پتا کیا دینا