انس معین
محفلین
سر غزل برائے اصلاح ۔
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
عظیم
محمد خلیل الرحمٰن
بحر : مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فِعْلن
وہی بضد ہیں مجھے خاک میں ملانے کو
میں جن کی راہوں میں رہتا ہوں گل بچھانے کو
یا
میں جن کی راہوں سے کانٹے رہا ہٹانے کو
( گل بچھانا ٹھیک ترکیب ہو گی ؟ )
----------------------
گلاب تیرے بدن سے مہک چراتے ہیں
کنول تڑپتے ہیں ہاتھوں میں تیرے آنے کو
----------------------
میں پتھروں کے وطن واسی سے یہ پوچھوں گا
برا سمجھتے ہو کیا تم بھی دل دکھانے کو
----------------------
ابھی نمی تھی نگاہوں میں پچھلی شب کی
پھر آگئی ہے شبِ غم مجھے رلانے کو
----------------------
ہٹاؤ پردہ جو ہو گا دیکھا جائے گا
میں اپنی تابِ نظر آیا ہوں آزمانے کو
----------------------
ہمارے پاس مری جاں سوائے آنکھوں کے
تمہاری راہوں میں کچھ بھی نہیں بچھانے کو
----------------------
مکان جس کا ہے مسجد کے ہی احاطے میں
اسے بھی دیکھا جاتے شراب خانے کو
----------------------
میں اپنے یار کے در سے کیوں سر اٹھا لوں
ملا سکون یہیں پر ہی بے ٹھکانے کو
-----------------------
ہجومِ غیر سے فرصت جب آپ پائیں تو
ادھر بھی دیکھئے گا کوئی ظلم ڈھانے کو
---------------------
ہمارے جیسے کم دل چھپائیں کیسے اسے
کلیجہ چاہیے رازِ ہجر چھپانے کو
---------------------
میں ڈوبا اس لیے احمد بڑی تسلی سے
مجھے گماں تھا کہ آئیں گے وہ بچانے کو
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
عظیم
محمد خلیل الرحمٰن
بحر : مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فِعْلن
وہی بضد ہیں مجھے خاک میں ملانے کو
میں جن کی راہوں میں رہتا ہوں گل بچھانے کو
یا
میں جن کی راہوں سے کانٹے رہا ہٹانے کو
( گل بچھانا ٹھیک ترکیب ہو گی ؟ )
----------------------
گلاب تیرے بدن سے مہک چراتے ہیں
کنول تڑپتے ہیں ہاتھوں میں تیرے آنے کو
----------------------
میں پتھروں کے وطن واسی سے یہ پوچھوں گا
برا سمجھتے ہو کیا تم بھی دل دکھانے کو
----------------------
ابھی نمی تھی نگاہوں میں پچھلی شب کی
پھر آگئی ہے شبِ غم مجھے رلانے کو
----------------------
ہٹاؤ پردہ جو ہو گا دیکھا جائے گا
میں اپنی تابِ نظر آیا ہوں آزمانے کو
----------------------
ہمارے پاس مری جاں سوائے آنکھوں کے
تمہاری راہوں میں کچھ بھی نہیں بچھانے کو
----------------------
مکان جس کا ہے مسجد کے ہی احاطے میں
اسے بھی دیکھا جاتے شراب خانے کو
----------------------
میں اپنے یار کے در سے کیوں سر اٹھا لوں
ملا سکون یہیں پر ہی بے ٹھکانے کو
-----------------------
ہجومِ غیر سے فرصت جب آپ پائیں تو
ادھر بھی دیکھئے گا کوئی ظلم ڈھانے کو
---------------------
ہمارے جیسے کم دل چھپائیں کیسے اسے
کلیجہ چاہیے رازِ ہجر چھپانے کو
---------------------
میں ڈوبا اس لیے احمد بڑی تسلی سے
مجھے گماں تھا کہ آئیں گے وہ بچانے کو
آخری تدوین: