فرحان محمد خان
محفلین
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
"لے کر یہ محبت کے آزار کدھر جائیں"
اے عشق ترے آخر بیمار کدھر جائیں
یہ آگ کی بستی ہے یہ شہر ہے شعلوں کا
اس شہر کہ ناداں گُل و گلزار کدھر جائیں
یہ اہلِ خرد کی رُت اور ہم ہیں جنوں والے
بے خود سے جنوں والے بے کار کدھر جائیں
یہ کرب جو سینے میں دل نام کا رکھتے ہیں
پہلو میں لیے ہم یہ ناچار کدھر جائیں
ساحل پہ سمندر کے برسوں سے کھڑے سوچو
بے رحم سی لہروں کے آثار کدھر جائیں
اب دور جہالت کا پھر لوٹ کہ آیا ہے
وہ علم و ہنر! سیرت و کردار کدھر جائیں
جب رنج ہی راحت ہے فرحان میاں تجھ کو
پھر تو ہی بتا تیرے غم خوار کدھر جائیں
اے عشق ترے آخر بیمار کدھر جائیں
یہ آگ کی بستی ہے یہ شہر ہے شعلوں کا
اس شہر کہ ناداں گُل و گلزار کدھر جائیں
یہ اہلِ خرد کی رُت اور ہم ہیں جنوں والے
بے خود سے جنوں والے بے کار کدھر جائیں
یہ کرب جو سینے میں دل نام کا رکھتے ہیں
پہلو میں لیے ہم یہ ناچار کدھر جائیں
ساحل پہ سمندر کے برسوں سے کھڑے سوچو
بے رحم سی لہروں کے آثار کدھر جائیں
اب دور جہالت کا پھر لوٹ کہ آیا ہے
وہ علم و ہنر! سیرت و کردار کدھر جائیں
جب رنج ہی راحت ہے فرحان میاں تجھ کو
پھر تو ہی بتا تیرے غم خوار کدھر جائیں
آخری تدوین: