غزل برائے اصلاح و تنقید "لے کر یہ محبت کے آزار کدھر جائیں"

مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
"لے کر یہ محبت کے آزار کدھر جائیں"
اے عشق ترے آخر بیمار کدھر جائیں

یہ آگ کی بستی ہے یہ شہر ہے شعلوں کا
اس شہر کہ ناداں گُل و گلزار کدھر جائیں

یہ اہلِ خرد کی رُت اور ہم ہیں جنوں والے
بے خود سے جنوں والے بے کار کدھر جائیں

یہ کرب جو سینے میں دل نام کا رکھتے ہیں
پہلو میں لیے ہم یہ ناچار کدھر جائیں

ساحل پہ سمندر کے برسوں سے کھڑے سوچو
بے رحم سی لہروں کے آثار کدھر جائیں

اب دور جہالت کا پھر لوٹ کہ آیا ہے
وہ علم و ہنر! سیرت و کردار کدھر جائیں

جب رنج ہی راحت ہے فرحان میاں تجھ کو
پھر تو ہی بتا تیرے غم خوار کدھر جائیں​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
لے کر یہ محبت کے آزار کدھر جائیں"
اے عشق ترے آخر بیمار کدھر جائیں
÷÷÷دوسرے مصرع میں الفاظ کی نشست خلاف محاورہ ہے۔ ’ترے بیمار آخر کدھر جائیں‘ محاورے کے لحاظ سے درست ہونا چاہیے۔

یہ آگ کی بستی ہے یہ شہر ہے شعلوں کا
اس شہر کہ ناداں گُل و گلزار کدھر جائیں
÷÷÷’کہ‘ یا ’کے‘؟۔ بحر سے خارج ہے دوسرا مصرع۔ یعنی اس بحر میں نہیں جس میں دوسرے اشعار ہیں۔
یہاں مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل بحر ہو گئی ہے۔ جب کہ غزل کی بحر مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن ہے۔ جو دو ٹکڑوں والی بحر ہے۔ اور اس بحر میں ہر ٹکڑے میں بات مکمل ہو جانا چاہیے۔

یہ اہلِ خرد کی رُت اور ہم ہیں جنوں والے
بے خود سے جنوں والے بے کار کدھر جائیں
÷÷÷یہ شعر واضح نہیں۔

یہ کرب جو سینے میں دل نام کا رکھتے ہیں
پہلو میں لیے ہم یہ ناچار کدھر جائیں
÷÷÷درست

ساحل پہ سمندر کے برسوں سے کھڑے سوچو
بے رحم سی لہروں کے آثار کدھر جائیں
÷÷÷یہ بھی سمجھ نہیں سکا۔

اب دور جہالت کا پھر لوٹ کہ آیا ہے
وہ علم و ہنر! سیرت و کردار کدھر جائیں
÷÷÷’لوٹ کے‘؟
دوسرا مصرع ویسے ہی ایک اوپر والے شعر کی طرح دوسری بحر میں ہو گیا ہے۔

جب رنج ہی راحت ہے فرحان میاں تجھ کو
پھر تو ہی بتا تیرے غم خوار کدھر جائیں
÷÷÷ٹھیک۔
 
اس شہر کہ ناداں گُل و گلزار کدھر جائیں
÷÷÷’کہ‘ یا ’کے‘؟۔ بحر سے خارج ہے دوسرا مصرع۔ یعنی اس بحر میں نہیں جس میں دوسرے اشعار ہیں۔
یہاں مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل بحر ہو گئی ہے۔ جب کہ غزل کی بحر مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن ہے۔ جو دو ٹکڑوں والی بحر ہے۔ اور اس بحر میں ہر ٹکڑے میں بات مکمل ہو جانا چاہیے۔
۔
سر اگر یوں کر لو تو
اس شہر کے ناداں سے گلزار کدھر جائیں

یہ اہلِ خرد کی رُت اور ہم ہیں جنوں والے
بے خود سے جنوں والے بے کار کدھر جائیں
÷÷÷یہ شعر واضح نہیں۔
۔
کوشش کر رہا ہوں کچھ بہتری آئے تو پیش کرتا ہوں
ساحل پہ سمندر کے برسوں سے کھڑے سوچو
بے رحم سی لہروں کے آثار کدھر جائیں
÷÷÷یہ بھی سمجھ نہیں سکا۔ ۔
ساحل پہ سمندر کے میں کب سے کھڑے سوچو
بے رحم سی لہروں ہیں آثار کدھر جائیں
اب دور جہالت کا پھر لوٹ کہ آیا ہے
وہ علم و ہنر! سیرت و کردار کدھر جائیں ۔
یہ دورِ جہالت ہے معلوم ہمیں لیکن
اب علم و ہنر اور یہ کردار کدھر جائیں
 

الف عین

لائبریرین
’’سر اگر یوں کر لو تو
اس شہر کے ناداں سے گلزار کدھر جائیں‘‘
وزن تو درست ہو گیا، لیکن گلزار ناداں یا عقلمند کب سے ہونے لگے؟

’’ساحل پہ سمندر کے میں کب سے کھڑے سوچو
بے رحم سی لہروں ہیں آثار کدھر جائیں ‘‘
محض الفاظ اور گرامر بدل دی ہے۔
شاید یوں لکھنا چاہا ہو۔
ساحل پہ سمندر کے میں کب سے کھڑا سوچوں
بے رحم سی لہریں ہیں آثار کدھر جائیں
لیکن مطلب تو اب بھی غائب ہے۔

‘‘یہ دورِ جہالت ہے معلوم ہمیں لیکن
اب علم و ہنر اور یہ کردار کدھر جائیں‘‘
÷÷÷یوں شاید بہتر ہو
یہ دورِ جہالت ہے ، یہ علم تو ہے ہم کو
اب علم و ہنر اور یہ کردار کدھر جائیں
لیکن کردار کا لفظ اب بھی فٹ نہیں ہے۔

اور
سر الف عین
نہ طُور میسر ہے ہمیں اور نہ موسی ہم
کرنے کو ترا مولا دیدار کدھر جائیں
یوں بہتر ہو
نے طور میسر ہے، اور ہم بھی نہیں موسیٰ
پہلا مصرع ویسے ہی دوسری بحر میں ہو گیا ہے جیسے پچھلی بار دو مصرعے ہو گئے تھے
 
s
’’سر اگر یوں کر لو تو
اس شہر کے ناداں سے گلزار کدھر جائیں‘‘
وزن تو درست ہو گیا، لیکن گلزار ناداں یا عقلمند کب سے ہونے لگے؟

’’ساحل پہ سمندر کے میں کب سے کھڑے سوچو
بے رحم سی لہروں ہیں آثار کدھر جائیں ‘‘
محض الفاظ اور گرامر بدل دی ہے۔
شاید یوں لکھنا چاہا ہو۔
ساحل پہ سمندر کے میں کب سے کھڑا سوچوں
بے رحم سی لہریں ہیں آثار کدھر جائیں
لیکن مطلب تو اب بھی غائب ہے۔

‘‘یہ دورِ جہالت ہے معلوم ہمیں لیکن
اب علم و ہنر اور یہ کردار کدھر جائیں‘‘
÷÷÷یوں شاید بہتر ہو
یہ دورِ جہالت ہے ، یہ علم تو ہے ہم کو
اب علم و ہنر اور یہ کردار کدھر جائیں
لیکن کردار کا لفظ اب بھی فٹ نہیں ہے۔

اور

یوں بہتر ہو
نے طور میسر ہے، اور ہم بھی نہیں موسیٰ
پہلا مصرع ویسے ہی دوسری بحر میں ہو گیا ہے جیسے پچھلی بار دو مصرعے ہو گئے تھے
سر کوشش کر رہا ہوں کچھ بہتری ہو تو پیش کرتا ہوں
 
’’سر اگر یوں کر لو تو
اس شہر کے ناداں سے گلزار کدھر جائیں‘‘
وزن تو درست ہو گیا، لیکن گلزار ناداں یا عقلمند کب سے ہونے لگے؟
جلتی ہوئی بستی سے گلزار کدھر جائیں
ساحل پہ سمندر کے میں کب سے کھڑا سوچوں
بے رحم سی لہریں ہیں آثار کدھر جائیں
لیکن مطلب تو اب بھی غائب ہے۔
تربت پہ میں شاہوں کی اک بات کھڑا سوچوں
اس وقت کی لہریں میں آثار کدھر جائیں
اک ہی تو سہارا ہے دنیا میں فقط اپنا
ہم چھوڑ کہ یہ چوکھٹ سرکار کدھر جائیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
درست ہو گیا
جلتی ہوئی بستی سے گلزار کدھر جائیں

تربت پہ میں شاہوں کی اک بات کھڑا سوچوں
اس وقت کی لہریں میں آثار کدھر جائیں
÷÷÷کچھ وضاحت کر سکو تو سمجھ میں آئے۔ ورنہ میں تو اب بھی سمجھ نہیں سکا۔

اک ہی تو سہارا ہے دنیا میں فقط اپنا
ہم چھوڑ کہ یہ چوکھٹ سرکار کدھر جائیں
÷÷اک ہی تو ۔۔۔ اچھا نہیں لگتا اس کی جگہ ’بس ایک‘ کر دو تو۔
یہاں پھر ’کہ‘ کی املا ہے۔ کیا اسے ’کے‘ سجھوں؟۔ املا کا خیال رکھو آئندہ۔
 
درست ہو گیا
جلتی ہوئی بستی سے گلزار کدھر جائیں

تربت پہ میں شاہوں کی اک بات کھڑا سوچوں
اس وقت کی لہریں میں آثار کدھر جائیں
÷÷÷کچھ وضاحت کر سکو تو سمجھ میں آئے۔ ورنہ میں تو اب بھی سمجھ نہیں سکا۔

اک ہی تو سہارا ہے دنیا میں فقط اپنا
ہم چھوڑ کہ یہ چوکھٹ سرکار کدھر جائیں
÷÷اک ہی تو ۔۔۔ اچھا نہیں لگتا اس کی جگہ ’بس ایک‘ کر دو تو۔
یہاں پھر ’کہ‘ کی املا ہے۔ کیا اسے ’کے‘ سجھوں؟۔ املا کا خیال رکھو آئندہ۔
سر یہ کہ اور کے کا کیا چکر ہے کچھ سمجھ نہیں آ رہا :)
 
Top