شہنواز نور
محفلین
السلام علیکم ۔۔۔۔۔۔محفلین ۔۔۔۔۔ایک غزل پیش خدمت ہے اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے ۔
بھلے منہ پھیر لو دلبر مرے مجھ سے خفا ہو کر
بہت ہی یاد آؤں گا تمہیں میں کل جدا ہو کر
بہت ہی یاد آؤں گا تمہیں میں کل جدا ہو کر
مبارکباد چارہ گر تجھے تیری مہارت پہ
رگوں میں زہر دوڑے ہے ترا اب تو دوا ہو کر
رگوں میں زہر دوڑے ہے ترا اب تو دوا ہو کر
ہوا تھا عشق کب مجھ کو لگی تھی چوٹ کب دل پہ
جگر کا زخم اُبھرا ہے غزل میں اب ہرا ہو کر
جگر کا زخم اُبھرا ہے غزل میں اب ہرا ہو کر
تجھی کو یاد کرنا ہے ترا ہی نام لینا ہے
کسی کا ہو نہیں سکتا کبھی یہ دل ترا ہو کر
اسے ٹھوکر عطا کرتا ہے پتھر راہ کا اب تو
کوئی انسان ملتا تھا کبھی مجھ سے خدا ہو کر
کوئی انسان ملتا تھا کبھی مجھ سے خدا ہو کر
ستارا نور کا جتنی بلندی پر بھی ہو کم ہے
تجھے بھی خاک میں اک روز ملنا ہے فنا ہو کر
تجھے بھی خاک میں اک روز ملنا ہے فنا ہو کر
مدیر کی آخری تدوین: