غزل برائے اصلاح : چلتے سانسوں کا اعتبار کیا

انس معین

محفلین
السلام علیکم
امید ہے آپ خیریت ہوں گے ۔
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:

چلتے سانسوں کا اعتبار کیا
میں کیا میرے اختیار کیا
------------------------
دل کے بدلے میں غم خریدوں میں
اور میرا ہے کاروبار کیا
------------------------
سر ہتھیلی پہ رکھے حاضر ہوں
اور بتا چاہتا ہے یار کیا
------------------------
نہ وہ دیوانے ہیں نہ بادہ کش
ان سے احمد کا سروکار کیا
------------------------
سامنے اس کی اک نگاہ کے
تیرے خنجر کے لاکھ وار کیا
------------------------
موسمِ وصل جس نے دیکھا ہو
اس کو بہلائے گی بہار کیا
------------------------
تو تو احمد کے دل میں بستا ہے
میں کروں تیرا انتظار کیا
 
بہت عرصے بعد تشریف لائے میاں ۔۔۔ امید ہے سب خیریت رہی ہوگی۔

آپ کی غزل کی ردیف کے ساتھ مسئلہ ہے۔ کہیں آپ نے ’’کیا‘‘ بطور کلمۂ استفسار استعمال کیا ہے تو کہیں بطور فعل۔ مسئلہ یہ ہے کہ دونوں کا تلفظ اور تقطیع الگ الگ وزن پر ہوتے ہیں۔
کیا بطور کلمۂ استفسار محض ’’کا‘‘ تقطیع ہوتا ہے کیونکہ اس کی ی مخلوط ہوتی ہے۔ ’’کیا‘‘ بطور فعل یائے معروف کے ساتھ ’’کِ+یا‘‘ تقطیع ہوتا ہے۔ آپ کی مزعومہ بحر اور زمین میں صرف مؤخرالذکر تلفظ ہی وزن میں آتا ہے، جبکہ یہ واضح ہے کہ کئی مقامات پر کلمۂ استفسار کا محل ہے۔

مطلع کو ہی دیکھیں۔
چلتے سانسوں کا اعتبار کیا
میں کیا میرے اختیار کیا
پہلا درست وزن میں ہے، کیونکہ یہاں ’’کیا‘‘ بطور فعل آ رہا ہے
فاعلاتن ۔۔۔ چل ت سا سو
مفاعلن ۔۔۔ ک اع ت با
فَعِلن ۔۔۔ ر کیا
تاہم دوسرے مصرعے میں دونوں مقامات پر کلمۂ استفسار کا محل ہے، جو یائے مخلوط کے ساتھ تقطیع نہیں ہو پائے گا۔
فعلاتن ۔۔۔ مِ ک یا مے
مفاعلن ۔۔۔ ر اخ تِ یا
فَعِلن ۔۔۔ ر ک یا
اوپر دی گئی تقطیع کے مطابق آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اگر ک+یا کی بجائے ’’کا‘‘ رکھا جائے تو وزن ناقص ہوجائے گا۔

اب آپ کو ان تمام اشعار پر دوبارہ فکر کرنی ہوگی جہاں کیا بطور کلمۂ استفسار آ رہا ہے۔

دعاگو،

راحلؔ
 
Top