اشرف علی
محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم سید عاطف علی صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔
غزل
مجھ سے دن میں وہ ستارہ کبھی جگنو مانگے
کاغذی پھول سے جیسے کوئی خوشبو مانگے
رات ہوتے ہی چھپا دیتا ہوں اس کا تکیہ
تا کہ وہ اپنے سرہانے مِرا/مِرے بازو مانگے
تجھ سے ملنے کی خوشی ہے مگر اتنی بھی نہیں
کہ مِری آنکھ سے تو خوشیوں کے آنسو مانگے
ہائے ! جس شخص نے بیمار کیا ہے تجھ کو
دلِ ناداں ! تو اسی شخص سے دارو مانگے ؟
میں نے رکھّا ہے طلسمات بھرے لفظ اس میں
داد سامع سے ، مِرے شعر کا جادو مانگے
کچھ زیادہ نہیں ، تھوڑی سی جگہ دل میں فقط
اے مِرے ہم وَطَنو ! تم سے یہ اردو مانگے
تب سمجھ جانا کہ وہ عشق نہیں وحشت ہے
جب یہ دل ، دشتِ جنوں اور رمِ آہو مانگے
دل ہے کیا جان بھی دے دوں گا میں ہنستے ہنستے
شرط یہ ہے کہ خود آ کر وہ پری رو مانگے
ماسوا اس کے علاجِ غمِ تنہائی نئیں
بے سبب تھوڑی کوئی یار کے پہلو مانگے
یہ سیاست ہے جو آپس میں لڑاتی ہے ہمیں
کب دعا لڑنے جھگڑنے کی من و تو مانگے !
یا
ورنہ کب جنگ ، مسلماں ہو کہ ہندو ، مانگے
ایک وہ تھے کہ ستارے کی تھی خواہش ان کو
ایک تو ہے کہ شبِ تیرہ سے جگنو مانگے
یا
ایک تو ہے کہ فقط رات سے جگنو مانگے
تف ہے تجھ پر کہ مہک گھر کی بڑھانے کے لیے
عقد میں لڑکی سے تو مال کی خوشبو مانگے
کیا عجب ہے کہ سنور جائے مقدر اس کا !
جس کا شانہ تِرے بکھرے ہوئے گیسو مانگے
یا
جس کے شانے کا پتا آپ کے گیسو مانگے
مانگ لے اور کسی کو تو خدا سے اشرف !
جو امانت ہے کسی کی ، اسے کیوں تو مانگے ؟
محترم سید عاطف علی صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔
غزل
مجھ سے دن میں وہ ستارہ کبھی جگنو مانگے
کاغذی پھول سے جیسے کوئی خوشبو مانگے
رات ہوتے ہی چھپا دیتا ہوں اس کا تکیہ
تا کہ وہ اپنے سرہانے مِرا/مِرے بازو مانگے
تجھ سے ملنے کی خوشی ہے مگر اتنی بھی نہیں
کہ مِری آنکھ سے تو خوشیوں کے آنسو مانگے
ہائے ! جس شخص نے بیمار کیا ہے تجھ کو
دلِ ناداں ! تو اسی شخص سے دارو مانگے ؟
میں نے رکھّا ہے طلسمات بھرے لفظ اس میں
داد سامع سے ، مِرے شعر کا جادو مانگے
کچھ زیادہ نہیں ، تھوڑی سی جگہ دل میں فقط
اے مِرے ہم وَطَنو ! تم سے یہ اردو مانگے
تب سمجھ جانا کہ وہ عشق نہیں وحشت ہے
جب یہ دل ، دشتِ جنوں اور رمِ آہو مانگے
دل ہے کیا جان بھی دے دوں گا میں ہنستے ہنستے
شرط یہ ہے کہ خود آ کر وہ پری رو مانگے
ماسوا اس کے علاجِ غمِ تنہائی نئیں
بے سبب تھوڑی کوئی یار کے پہلو مانگے
یہ سیاست ہے جو آپس میں لڑاتی ہے ہمیں
کب دعا لڑنے جھگڑنے کی من و تو مانگے !
یا
ورنہ کب جنگ ، مسلماں ہو کہ ہندو ، مانگے
ایک وہ تھے کہ ستارے کی تھی خواہش ان کو
ایک تو ہے کہ شبِ تیرہ سے جگنو مانگے
یا
ایک تو ہے کہ فقط رات سے جگنو مانگے
تف ہے تجھ پر کہ مہک گھر کی بڑھانے کے لیے
عقد میں لڑکی سے تو مال کی خوشبو مانگے
کیا عجب ہے کہ سنور جائے مقدر اس کا !
جس کا شانہ تِرے بکھرے ہوئے گیسو مانگے
یا
جس کے شانے کا پتا آپ کے گیسو مانگے
مانگ لے اور کسی کو تو خدا سے اشرف !
جو امانت ہے کسی کی ، اسے کیوں تو مانگے ؟