غزل برائے اصلاح : کبھی نظریں ملاتا ہے کبھی نظریں چراتا ہے

انس معین

محفلین
سر غزل برائے اصلاح : الف عین ظہیراحمدظہیر محمّد احسن سمیع :راحل:

کبھی اپنا نظر آئے کبھی وہ غیر دکھتا ہے
کبھی نظریں ملاتا ہے کبھی نظریں چراتا ہے

اگر یوں چاندنی شب میں ملے اس سے ہوئی مدت
بڑے عرصے سے وہ بھی تو دیا اب خود بجھاتا ہے

بہت مجبور کرتا ہے لبوں کو مسکرانے پر
وہ اک بچھڑا ہوا ساتھی کبھی جب یاد آتا ہے

حیا کی اوٹ میں چھپ کرتعلق ان کی آنکھوں سے
نبھا آئے ہیں جیسے ہم کوئی ایسے نبھاتا ہے ؟

یہی رنگِ محبت ہے یہی دستور الفت ہے ؟
جو تجھ پر جان دیتے ہیں تو ان کو ہی ستاتا ہے
 
عزیزی احمد، تسلیمات۔

پہلا شعر اگر مطلع بنا رہے ہیں تو پھر ایطا کا عیب در آئے گا کیونکہ دکھتا اور چراتا قافیہ نہیں بن سکتے۔
اگر مطلع قائم نہیں کرنا تو پھر تقابل ردیفین کو دور کریں، وگرنہ پہلا شعر مطلع ہی قرار دیا جائے گا اور قوافی معیوب ٹہریں گے۔

اگر یوں چاندنی شب میں ملے اس سے ہوئی مدت
بڑے عرصے سے وہ بھی تو دیا اب خود بجھاتا ہے
بیان بہت زیارہ الجھاو کا شکار ہے۔ پہلے مصرعے میں "یوں"بھرتی کا معلوم ہوتا ہے۔ پھر چاندنی رات میں ملاقات ہوئے مدت ہونے سے اس کے دیا خود بجھانے کا تعلق واضح نہیں ہو پا رہا۔ اگر آپ کا مقصود یہ ہے کہ محبوب بھی اب انتظار میں زیادہ نہیں جاگتا تو الفاظ اس مفہوم کا ساتھ نہیں دے رہے۔

بہت مجبور کرتا ہے لبوں کو مسکرانے پر
وہ اک بچھڑا ہوا ساتھی کبھی جب یاد آتا ہے

حیا کی اوٹ میں چھپ کرتعلق ان کی آنکھوں سے
نبھا آئے ہیں جیسے ہم کوئی ایسے نبھاتا ہے ؟
مجھے یہ دونوں شعر اچھے لگے۔ ہاں، اگر دوسرے والے کے پہلے مصرعے کو مزید صاف بناسکیں تو کیا بات ہے۔

یہی رنگِ محبت ہے یہی دستور الفت ہے ؟
جو تجھ پر جان دیتے ہیں تو ان کو ہی ستاتا ہے
خیال اچھا ہے۔ پہلے مصرعے بیان کو تھوڑا صاف اور بہتر کیا جاسکتا ہے، کسی طرح تیرا/تیری لا سکیں تو۔

دعاگو،
راحل۔
 

الف عین

لائبریرین
جب قوافی ہی غلط ہوں تو میں اشعار کو اصلاح کی نظر سے دیکھتا ہی نہیں کہ الفاظ بدل کر بہت ممکن ہے کہ موجودہ اغلاط نہ رہیں اور کچھ نئی اغلاط در آئیں!
 
Top